• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی میں اورشہری علاقوں میں اگر کوئی فرد سگ گزیدگی کے سبب انتقال کرجائے تو ترقی کی بات کرنا کس طرح درست قرار دیا جاسکتا ہے؟کیا اس کے بعد بھی کچھ بچتا ہے؟ کوئی تو بتلائے،کوئی تو سمجھائے۔

شکار پور ،سندھ میں سگ گزیدگی کی ویکسین نہ ملنے پرگزشتہ دنوں ایک اور بچے نے تڑپ تڑپ کر ماں کی آغوش میں دم توڑ ا تو یوں محسوس ہوا کہ دل میں اُمّید نے دم توڑدیا۔ یہ درد ناک واقعہ محکمہ صحت کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس ضمن میں اے آر وی سینٹرکے انچارج ڈاکٹرکا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ شکار پور، جیکب آباد سمیت پورے ڈویژن میں ویکسین کی کمی ہے۔

ایک محنت کش کے دس سالہ بیٹے کا یوں بے بسی سے موت کے منہ میں چلے جاناکسی المیے سے کم نہیں ہے۔ بچے کے والد کا کہنا تھا کہ بچے کو شکار پور، سلطان کوٹ اور دیگر مقامات پر لے کرگئے، لیکن اس کا علاج نہ ہوسکا۔ ذرایع ابلاغ پر یہ خبر نشر ہونے کے بعد سندھ کے وزیراطلاعات ومحنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ کتے کے کاٹنے سے بچے کی موت کے ذمے دار والدین ہیں۔ 

انہوں نے یہ بات کمشنر لاڑکانہ کی رپورٹ کے تناظر میں کی تھی۔ حالاں کہ انہیں چاہیے تھا کہ سرکاری اہل کاروں کی جانب سے خانہ پری کے لیے بنائی جانی والی رپورٹس پر بھروسہ کرنے کے بجائے صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرتےاور خود حقایق جاننے کی کوشش کرتے۔ 

سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں جاںبہ حق ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہونے اوراس کا علاج موجود ہونے کے باوجود ویکسین کا سندھ بھر سے غائب ہوجانا سرا سر محکمہ صحت کی لاپروائی ہے جو انسانی جانوں کے زیاںکا سبب بن رہی ہے۔

نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے بچے کی تدفین کے بعد اس کے غم زدہ باپ نے ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اپنے بچے کو کتے کے کاٹنے کے بعد ویکسین لگوانے کے لیے کہاں کہاں نہیں گیا، سلطان کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ تک بھاگا دوڑا، مگر اس کے بچے کو کہیں بھی انجکشن لگا کراس کی جان نہیں بچائی گئی۔ 

لاڑکانہ گیا تو ای آر وی سینٹر میں بچے کوداخل نہیں کیا گیا۔وہاں ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہاں اینٹی ریبیز ویکیسن نہیں ہے، آپ بچے کو کراچی لے جائیں۔اس نے ایمبولینس 5ہزار روپے ادا کرکے کرائے پر حاصل کی اور بچے کی میت گھر لے گیا۔تمام تر بھاگ دوڑ کے بعدآخر کاراس کا بچہ لاڑکانہ کے کمشنر آفس کے احاطے میں احتجاج پر بیٹھی ہوئی اپنی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر غریب کے بچوں کو سرکاری اسپتالوں میں بھی دوا نہ ملے تو وہ کہاں جائیں؟

کہانی ابھی باقی ہے

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔اطلاعات کے مطابق صوبے کے زیادہ تراضلاع میں یہ ہی صورت حال ہے۔انیس ستمبر کی ایک خبر کہتی ہے کہ تعلقہ اسپتال ڈگری میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی تعداد انتہائی کم ہے،حالاں کہ کتے کےکاٹنے کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تحصیل ڈگری کے شہروں کے علاوہ ضلع بدین کے کیسز بھی تعلقہ اسپتال ڈگری آرہے ہیں۔ 

ایم ایس، ڈگری سمیت دیگر علاقوں میں کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ہی تحصیل اسپتال ڈگری میں صرف 60کے قریب انجیکشن کی موجودگی سے ظاہر ہے کہ اس وقت سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث ویکسین کی یہ تعداد ناکافی ہے۔ 

اس سلسلے میں ایم ایس تعلقہ اسپتال ڈگری ڈاکٹر انوارالدین کھتری نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈگری سمیت جھڈو، کوٹ غلام محمد، ٹنڈو جان محمد، میرواہ گورچانی اور ضلع کے دیگر اسپتالوں میں بھی ویکسین ناپید ہےجس کی وجہ سے تعلقہ اسپتال ڈگری میں مریضوں کی تعداد کے مطابق سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامناہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کتے کے کاٹے کے کیسز نہ صرف ڈگری تحصیل بلکہ دیگر علاقوں سے بھی لائے جارہے ہیں،لیکن ہمارے پاس اینٹی ریبیز ویکسین کی کمی ہے اور صرف 60انجیکشن موجود ہیں جو مریضوں کی تعداد کے حساب سے ناکافی ہیں ۔

انہوں نے شہروں اور دیہی علاقوں میں سگ گزیدگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں سے اپیل کی کہ وہ سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کریں۔یاد رہے کہ اس برس اب تک صرف کراچی میں تیرہ افراد کتّے کے کاٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

انوکھی منطق

دوسری جانب صوبائی وزیرصحت عذرا پیچوہو نے کتوں کے کاٹنے سے متاثرہ افراد کے حوالے سے الگ ہی منطق پیش کی ہے۔ان کا کنا تھا کہ ہر کتا پاگل نہیں ہوتا، کچھ اپنے دفاع میں کاٹ لیتے ہیں۔ان کے مطابق کتا کاٹے تو اسے پکڑ لیں۔

ڈاکٹر عذرا فضل پیجو ہو کا کہنا تھا کہ ہرکتے کے کاٹنے کے شکار شخص کو ویکسین نہیں لگوانی چاہیے۔ کتوں کے کاٹنے کی ویکسین ہمارے پاس کثیر تعداد میں موجود ہے لیکن منہگی ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔

کیا حکّام بے خبر تھے؟

پورے صوبے میں اینٹی ریبیز ویکسین کی کمی ہے اور کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کیا حکّام اس صورت حال سے بے خبر تھے؟اگر کوئی فرد یہ بات کہتا ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانے کا مشورہ دینے کے علاوہ مزید کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ذرایع ابلاغ اس بارے میں مسلسل آگاہ کررہے تھے۔یقین نہ آئے تو اسی برس اٹھارہ مئی کو شایع ہونے والی ایک خبر دیکھ لیں جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں سگ گزیدگی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

چھ ماہ کے دوران ایک لاکھ سے زاید افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوچکے ہیں۔صوبے کے کئی اضلاع میں ویکسین نہ ہونے کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ڈی جی ہیلتھ، سندھ، ڈاکٹر مسعود سولنگی کے مطابق ہرضلعے میں ویکسین وافر مقدار میں موجود ہے ۔حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں آوارہ اور پاگل کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ سگ گزیدگی کے واقعات حیدرآباد سمیت اندرون سندھ پیش آئے ہیں۔

حیدرآباد میں3000، بدین میں 3487، دادو میں8358، گھوٹکی میں5077، قمبر میں 9021، لاڑکانہ میں3932، میر پور خاص میں 3298، نوشہروفیرز میں7572، شکار پور میں4918، شہید بے نظیرآباد میں4000اور عمرکوٹ میں 3966کتے کے کاٹنے کے واقعات پیش آئے۔بیش تر اضلاع میں ویکسن ناپید ہے،لیکن لیاقت یونیورسٹی اسپتال حیدرآباد کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ صرف سول اسپتال میں ویکسین کی سہولت موجود ہے۔شہریوں کے مطابق بلدیاتی ادارے آوارہ کتوں کو مارنے کی ذمے داری احسن طریقے سے ادا کریں تو سگ گزیدگی کے واقعات سے بچا جا سکتا ہے ۔

اس کے بعد ستائیس جون کو اخبارات میں شایع ہونے والی ایک خبر پیشِ خدمت ہے:

کراچی سمیت سندھ بھر میں آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے سندھ حکومت سمیت بلدیاتی ادارے غیر سنجیدہ ہیں۔ آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافے کے سبب سندھ بھر میں سگ گزیدگی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔

سگ گزیدگی کے واقعات سے ہونے والی بیماری ریبیز کے علاج کے لیے اسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین اور ریبیز ایمینوگلوبین انجیکشن کی قلت ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ ڈاکٹر مسعود سولنگی نے سندھ کے تمام کمشنرز کو خط لکھ دیا ہے جس میں انہیں آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے کتا مار مہم تیز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

رواں سال آوارہ کتوں نے اندرون سندھ ہزاروں افراد کو کاٹ لیا۔محکمہ صحت سندھ کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے ابتدائی5 ماہ میں لاڑکانہ ڈویژن میں کتوں کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔ لاڑکانہ میں جنوری سے مئی تک 22 ہزار 822 افراد کو کتوں نے کاٹا۔ قمبر، شہداد کوٹ میں سب سے زیادہ 7678، کشمور میں4381، شکار پور میں 4364 ، لاڑکانہ میں 3752 اور جیکب آباد میں 2647 کیسز رپورٹ ہوئے۔ حیدرآباد ڈویژن میں کتوں کے کاٹنے کے 21 ہزار 99 واقعات رپورٹ ہوئے۔

دادو میں سب سے زیادہ،یعنی 6 ہزار 989، بدین میں 3 ہزار 383، جامشورو میں 2 ہزار 811، ٹنڈوالہ یار میں ایک ہزار 984، مٹیاری میں ایک ہزار 590، ٹھٹھہ میں ایک ہزار 490، سجاول میں ایک ہزار 188 اور ٹنڈو محمد خان میں 802 کیس رپورٹ ہوئے۔

شہید بینظیرآباد ڈویژن میں 12 ہزار 175، میر پورخاص ڈویژن میں 6 ہزار 774، سکھر ڈویژن میں کتوں کے کاٹنے کے 6 ہزار 263 اور کراچی میں 320 افراد کو کتوں نے کاٹا۔ضلع ملیر میں سب سے زیادہ،یعنی،274واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ضلع کورنگی میں 18، ضلع وسطی میں 11، ضلع شرقی میں 10، ضلع غربی اورضلع جنوبی میں ایک ایک کیس سامنے آئے۔

دوسری جانی کراچی کےتین بڑے اسپتالوں، جناح ، سول اور انڈس اسپتال کے مطابق سگ گزیدگی کے واقعات کے باعث ریبیز (کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری) میں مبتلا 11 افراد کی اموات ہوچکی ہیں۔ جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق پاکستان میں اس وقت اے آر وی ویکسین کی شدید قلت ہے۔بھارتی کمپنیز نے پاکستان کو اس کی فراہمی بہت کم کردی ہے۔کتے کے کاٹنے کے کیسز میں اضافے کا اہم اور بنیادی سبب عوام میں آگاہی نہ ہونا اور اسپتالوں میں ویکسین کی عدم دست یابی ہے۔

ملکی سطح پر آگاہی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔جناح اسپتال میں 2019 میںاب تک سگ گزیدگی کے 6ہزار کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ ریبیز کے سبب جاں بہ حق ہونے والوں کی تعداد 6 ہے۔ گزشتہ سال 2018 میں سگ گزیدگی کے 7 ہزار 800 کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور جاں بہ حق افراد کی تعداد 9 تھی۔

اس خبر میں مختلف سماجی راہ نماوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ کراچی میں سگ گزیدگی کے بڑھتے واقعات کی وجہ بلدیاتی اداروں کی عدم توجہ ہے۔شہر بھر میں سڑکوں اور کچرا کنڈیوں میںلگے کچرے کے ڈھیر صاف نہیں کیے جارہے جس کے باعث کچرے کے ڈھیروں میں موجود خوراک سے کتوں کی افزائش تیز ہوگئی ہے اور بلدیاتی ادارے کئی سال سے غیر اعلانیہ طور پر کتا مار مہم بند کرچکے ہیں جس سے کتوں کی افزائش میں تیزی آگئی ہے ۔ 

کتوں کی نس بندی اور انہیں اینٹی ریبیز ٹیکے لگانے کا منصوبہ بھی التوا کا شکارہے جس کی وجہ سے شہری اس اذیت ناک صورت حال سے چار ہیں۔ ہر گلی اور سڑک پر کتوں کے غول بھونکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہریوں کا گلیوں اور محلوں سے گزرنا محال ہوگیا ہے۔

تیرہ ستمبر کی ایک خبر کے مطابق شہرقائد کے مختلف علاقوں میں سگ گزیدگی کے واقعات میں یک دم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جناح اسپتال میں کل رات سے آج تک کتوں کے کاٹنے کے 62 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔تفصیلات کے مطابق شہر کے جن علاقوں میں سگ گزیدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ان میں ملیر، ماڈ ل کالونی سرفہرست ہے۔ محمود آباد، ناظم آباد اورکلفٹن کے علاوہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق گزشتہ رات سگ گزیدگی کے 12 کیسز لائے گئے۔ صبح سے اب تک پچاس کیسز صرف جناح اسپتال میں آچکے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تعداد 62 بنتی ہے ۔

متاثرہ افراد کو جناح اسپتال کے ڈاگ بائٹ یونٹ میں ابتدائی طبی امداد دے کر ڈسچارج کردیا گیا۔ کتے کے کاٹنےکے باعث متاثرہ شخص کو ابتدائی طورپر ویکسین کی دو ڈوز فراہم کی جاتی ہیں۔متاثرہ افراد کو مزید ویکسین فراہم کرنے کے لیے شیڈول فراہم کردیاجاتا ہے۔ یاد رہے کہ کراچی میں صرف جناح اور سول وہ سرکاری اسپتال ہیں جہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین موجود ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کسی سرکاری اسپتال میں یہ سہولت میسر نہیں ہے ۔بعض نجی اسپتال بھی سگ گزیدگی کی ویکسین فراہم کرتے ہیں تاہم وہاں ویکسین اور ابتدائی ٹریٹمنٹ کی قیمت ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے۔ سول اور جناح اسپتال میں یہ سہولت بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے۔

ہماری بے حسی

دنیا بھر میں سالانہ تقریبا چھ ہزارافراد ریبیز کی وجہ سے موت کے من میں چلے جاتے ہیں۔ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں سگ گزیدگی کے رپورٹ کیے جانے والے کیسز،یہاں تک کہ ریبیز سے ہونے والی اموات کا درست ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے کوئی مرکزی رجسٹری موجود نہیں ہے۔حکومت شاید ملک میں کتوں کی آبادی کی گنتی کرنے میں کوئی دل لچسپی نہیں رکھتی۔تاہم 2008 سے 2010 کے دوران انٹرایکٹیوریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اور انڈس اسپتال،کراچی کے اشتراک سے نیشنل ڈاگ بائٹ اینڈ ریبیزکیسز پر تحقیق کی گئی تھی ۔اس تحقیق میں شامل کیے گئے 9 ہیلتھ سینٹرز نے ریبیز کے باعث 367 اموات رپورٹ کی تھیں۔ تحقیق کے مطابق شہروں سے 76.8فی صد اور دیہی علاقوں سے 23.2 فی صد کیسزسامنے آئے تھے۔تحقیق کے نائج کے مطابق 83 فی صد مرد اور 17فی صد خواتین کتے کے کاٹے کا شکار ہوئی تھیں۔ان میںسے اکثر کی عمریں 10 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ماہرین کے مطابق شاید ہمارے پالیسی سازوں کواس ضمن میں کوئی تشویش نہیں کیوں کہ وہ نہیں جانتے کہ تنگ علاقوں میں چلنا یا سائیکل چلانا کیساہے جہاں آوارہ کتّے حملےکرنےکے لیے تیار رہتے ہیں۔

کتّےکے کاٹے کو ہلکا نہ لیں

کتّے کے کاٹنے کے بعد اگر مناسب طبّی امدادفراہم کردی جائے تو یہ بہت سستا اور آسان کام ہوتا ہے۔لیکن بہت سے افراد اسے عام زخم سمجھ کر توجہ نہیں دیتے۔بعض افراد کا خیال ہے کہ صرف پاگل یا باولے کتّے کے کاٹنے پر انجیکشن(اینٹی ریبیز ویکسین)لگوان کی ضرورت ہوتی ہے۔انہیں معلوم ہی نہیں صحت مند کتّے کی جانب سے لگایا جانے والا زخم بھی ان کی جان لے سکتا ہے۔یہ ایسا خطرناک مرض ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ہر سال دُنیا بَھر میں28ستمبر کوسگ گزیدگی کے انسداد کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔یہ دن منانے کا مقصد ہر سطح تک مرض سے متعلق درست معلومات کوعام کرنا ہے۔

ریبیز کا وائرس بعض مخصوص جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوکر دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ تاہم، اس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب پاگل، آوارہ کتّے کا کاٹنا ہے۔یہ و ائرس کتّے، بلی، لومڑی اور گیدڑ کےلعاب میں پایا جاتا ہے۔چناں چہ اگر ان میں سے کوئی جانور،خصوصا، کتّا اپنے دانت کسی انسان کی جِلد میں پیوست کردے توریبیز کے وائرس اُس انسان کے جسم میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ہلکی سی خراش سے بھی منتقلی کا عمل ہوجاتا ہے۔ بیماری کی علامات ظاہر ہونے اور وائرس کی افزایش کا دارومدار کتّے کے لعاب میں پائے جانے والے وائرس کی تعداد پر ہوتا ہے ۔اگر کتّے نے دماغ کے قریبی حصے میں کاٹا ہو تو علامات زیادہ تیزی سے ظاہر ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وائرس کو دماغ تک پہنچنے کے لیے تھوڑافاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔بعض افراد میں محض دس یوم میں علامات ظاہر ہوجاتی ہیں اور بعض میں دو برس تک کا عرصہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ابتدا میں متاثرہ فرد کو زخم کی جگہ پر درد اور خارش محسوس ہوتی ہے۔اگلے مرحلے میں سَردرد، ہلکا بخار، کثرت سے رال بہنا، چکر آنا، ڈپریشن، بےچینی ،چڑچڑےپن، غذا نگلنے میں دشواری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔اگر مریض کے جسم کو وقفے وقفے سے جھٹکے لگنے لگیں اوراسے پاگل پن کادورہ پڑنے لگے تواچھا طبیب مریض کا محض ایک بار سرسری معائنہ کرکے اور یہ جان کر کہ اسے کسی وقت کتّے نے کاٹا تھا ،فورا خطرے کی گھنٹی بجادیتا ہے۔وہ سمجھ جاتا ہے کہ ریبیز کا وائرس متاثرہ شخص کے دماغ تک پہنچ چکا ہے فرد کی جان کو سخت خطرہ لاحق ہے۔اگر متاثرہ شخص کو پانی دیکھ کر خوف محسوس ہو تو عام آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسے ریبیز کے وائرس نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اس مرحلے پر مریض کی جان بچانا طبیبوں کے لیے کافی مشکل کام ہوتا ہے۔

بچاو کی تدابیر

اگر کسی شخص کو عام کتا بھی کاٹ لے تو اسے چاہیے کہ زخم کو جلد از جلدصابن اورپانی سے آٹھ تا دس منٹ تک اچھی طرح دھوئےاور پھرجلد ازجلد اینٹی ٹیٹنس انجیکشن لگوائے اورمکمل علاج کرائے۔آج اس کا علاج بہت آسان ہے ۔جدید اور موثرویکسین استعمال کی جا رہی ہیں۔یہ چار انجیکشن کا کورس ہوتاہے جو کتے کے کاٹنے کے پہلے ،تیسرے ،ساتویں اور اٹھائیسویں روزلگایا جاتا ہے۔ اگر یہ انجیکشن نہ لگوائے جائیں تو متاثرہ فردکی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

ریبیز نامی وائرس پاگل کتّے کے لعاب میں موجود ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی بھی کتّا کاٹ لے تو اس سوچ بچار میں وقت ضایع کرنے کے بجائے کہ وہ پاگل تھا یا نہیں، پہلی فرصت میں قریبی سرکاری اسپتال پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔تمام ترخامیوں کے باوجود سرکاری اسپتالوں کا عملہ ایسی صورت حال سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتا ہے، کیوں کہ سرکاری اسپتالوں میں روزانہ ایسے لاتعداد کیسز لائے جاتے ہیں۔

اسپتال دورہوتو تو صابن اور بہتے پانی سے دس پندرہ منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیں، لیکن پٹّی مت باندھیں۔اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ماہرین کے مطابق ایسے افراد جنہیں کتّا کاٹ لے انہیں چاہیے کہ وہ ٹوٹکے نہ استعمال کریں۔ زخم پر نمک اور لال مرچ چھڑک کر دھاگا باندھنے سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ریبیز مکمل طور پر ویکسین سے رکنے والا مرض ہے جو لوگوں میں جانور کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ عموماً وائرس سے متاثرہ شخص میں علامات ظاہر ہوجائیں تو یہ ہمیشہ تقریباً موت کی وجہ بن جاتی ہیں۔

ویکسین کی کم یابی کی وجہ

طبیبوں کے مطابق فرانس اور جرمنی کی ویکسین زیادہ موثرتصور کی جاتی ہیں، لیکن انہیں درآمد کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔البتہ بھارت سے ویکسین درآمد کرنے پر بہت کم خرچ آتا ہے۔لیکن گزشتہ برس سےپڑوسی ملک سے ویکسین کا حصول بہت مشکل ہوگیا ہے۔

اس برس یہ خبر آئی تھی کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی مدد سے ویکسین کی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ وزارت صحت کے ماتحت کام کرنے والا یہ خودمختار ادارہ 1960 میں قائم کیا گیا تھا۔تب سے اب تک یہ جان بچانے والی ادویات کی تیاری میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، ڈاکٹر عامراکرام نے یہ خوش خبری دی تھی کہ ان کا ادارہ ریبیز ویکسین بنارہا اور محدود پیمانے پر اعلیٰ درجے کا اے آر وی بھی تیار کررہاہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا بنایا ہوا سیرم اور ویکسین صرف پبلک اسپتال کے لیے میسر ہوگی،بازار کے لیے نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک این آئی ایچ کی لیب میںدو لاکھ سیرم پر مشتمل ویکسین تیار کی گئیں اور اگر فنڈنگ جاری رہی تودسمبر تک 4 لاکھ ویکسین تیار کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔لیکن ہمارا ادارہ چھ لاکھ اے آر وی ہی تیار کرسکے گا،جب کہ اس کی طلب 10 لاکھ سے زاید ہے۔

تازہ ترین