• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے ڈائریکٹر، پاکستان کے اعزازی قونصلر کارپس کے صدر اور پاکستان میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میں نے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز (FICAC)سلوینیا کے شہر Bledمیں 31اگست سے 3ستمبر تک منعقد ہونیوالے ’’Bled اسٹرٹیجک فورم 2019‘‘ میں شرکت کی۔ فورم میں خطے میں مستحکم معاشی ترقی پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین اور سربراہان مملکت نے خطاب کیا۔ اجلاس کا افتتاح سلوینیا کے صدر بوروت باہور نے کیا جبکہ اجلاس کے مختلف سیشنز میں سلوینیا کے وزیراعظم مرجان ساریک اور وزیر خارجہ ماریو ساریر نے شرکت کی۔اجلاس میں دنیا بھر کے ایک ہزار سے زیادہ عالمی کمپنیوں اور بینکوں کے سربراہان، معیشت دان اور ممتاز بزنس مینوں نے شرکت کی۔ بلیڈ اکنامک فورم گزشتہ کئی سال سے سلوینیا کے شہر بلیڈ میں حکومتی سطح پر منعقد کیا جارہا ہے جو ورلڈ اکنامک فورم کی طرز کا ہے جس میں سرمایہ کاری کے مواقع، دنیا کی معاشی بے یقینی، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ)، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عالمی کرنسیوں کی بے یقینی، امریکہ چین تجارتی جنگ، ماڈرن ڈپلومیسی، تعلیم اور صحت جیسے اہم موضوعات پر ہر ڈیڑھ گھنٹے بعد عالمی ماہرین نے مختلف سیشنز میں اظہار خیال کیا۔

جمہوریہ سلوینیا یورپی یونین کا ممبر ملک ہے جس کا دارالخلافہ Ljubljanaہے۔ سلوینیا کی آبادی 21لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں 63فیصد عیسائی، 2.4فیصد مسلمان اور باقی دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ سلوینیا میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ سلوینیا نے 25جون 1991میں یوگوسلاویہ سے آزادی حاصل کی اور یکم مئی 2004کو یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ سلوینیا کا مجموعی رقبہ 20,273اسکوائر کلومیٹر اور جی ڈی پی 80ارب ڈالر ہے جبکہ فی کس آمدنی 38,634ڈالر ہے اور فی کس آمدنی کے حساب سے یہ ملک دنیا میں 37ویں نمبر پر آتا ہے۔ سلوینیا کا شہر Bledدارالخلافہ Ljubljanaسے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے جس کی آبادی 8,171نفوس پر مشتمل ہے۔ Bledسطح سمندر سے 508میٹرکی بلندی پر ہے اور اس کا شمار دنیا کے خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے۔ Bledنہر کی وجہ سے سیاحوں میں نہایت مقبول ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح یورپ اور دیگر ممالک سے یہاں آتے ہیں۔ ہمیں بلیڈ کے تاریخی فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں سے بلیڈ نہر اور اس کے اطراف سبز چٹانیں جو سردیوں میں سفید ہوجاتی ہیں، نہایت دلکش منظر پیش کررہی تھیں۔ Bledکی ترقی کا سہرا شہر کے میئر جینیز فج فارکو جاتا ہے۔ فورم کے دوران ماڈرن ڈپلومیسی کے مسائل اور دنیا میں اعزازی قونصل جنرلز کے نئے کردار پر اہم پینل ڈسکشن منعقد کی گئی جس میں ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے صدر اکوت ایکن، سیکریٹری جنرل نکوس مارگرے پولس، سلوینیا کے صدر کے مشیر برائے سفارتکاری اور سابق جج پروفیسر آرنسٹ پیٹرک، ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور جج کیلی مین جیکک، WFCکے ڈائریکٹر لیف کرسٹین، میزبان ملک سلوینیا کے ڈائریکٹر مارکو اسمول اور مجھ سمیت ورلڈ فیڈریشن کے دیگر بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حصہ لیا۔ پینل ڈسکشن میں دنیا میں تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ میں اعزازی قونصل جنرلز کے بڑھتے ہوئے کردار پر نہایت اہم گفتگو ہوئی۔ میں نے اعزازی قونصل جنرلز کی دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کی معاشی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے پینل کو تجویز دی کہ اکنامک ڈپلومیسی کو یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز جس کے 90ممالک میں ہزاروں اعزازی قونصل جنرلز ممبرز ہیں، کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں خصوصی درجہ دیا گیا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن کا 9رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز ادارے کا انتظامی امور چلاتا ہے جس کا گزشتہ 12برسوں سے میں ڈائریکٹر ہوں۔ فورم کے آخری روز ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے ڈائریکٹرز کو بیگمات کے ساتھ سلوینیا کے تاریخی مقام Postojnaغار کا دورہ کرایا گیا جو Bledسے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اس غار کو 1850میں دریافت کیا گیا۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا غار ہے جو 24,120میٹر طویل اور 115میٹر گہرا ہے۔ غار کو دیکھنے کیلئے ٹرین سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ غار کے اندر کا درجہ حرارت 8سے 10ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جس کیلئے ہمیں گرم کپڑے پہننے کی ہدایت کی گئی تھی۔ غار کے نیچے پانی ہے اور لٹکی ہوئی قدرتی شاہکار مہراب نما چٹانیں اور اُن پر پڑنے والی لائٹس ایک نہایت دلفریب منظر پیش کررہی تھیں۔ سلوینیا میں میری ملاقات سلوینیا پاکستان بزنس کلب کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر پرویز مظہر سے ہوئی جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ 56سال پہلے 1963ء میں سلوینیا میں الیکٹرونک انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آئے تھے اور پھر یہاں شادی کر کے یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے 30برس تک سلوینیا کی ٹیلی کام کمپنی میں انجینئر کی حیثیت سے کام کیا اور آج کل وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایران، ترکی اور یونان کے راستے سلوینیا میں غیر قانونی داخل ہونے والے گرفتار پاکستانیوں کیلئے سرکاری مترجم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پرویز مظہر کے مطابق اس سال تقریباً 3ہزار پاکستانی سلوینیا میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست کی مگر سلوینیا کی حکومت نے ان میں سے زیادہ تر پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کردیا۔ انسانی اسمگلنگ جس پر میرے بھائی اشتیاق بیگ نے بھی گزشتہ ہفتے کالم تحریر کیا تھا، میں تیزی سے اضافہ یقیناً ایک تشویشناک بات ہے اور اسے روکنے کیلئے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ یہ دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔

تازہ ترین