• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27 ستمبر کو عمران خان وزیراعظم پاکستان کی یونائیٹڈنیشنز کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو ہر جگہ سراہا جارہا ہے۔ یقیناً یہ ایک قابل تعریف تقریر تھی۔ کیونکہ ترقی پذیرممالک کے سربراہان بڑی مشکل سے ہی اتنے بڑے فورم پر کوئی اہم سخت بات کرپاتے ہیں۔

عموماً تجاہل عارفانہ کا سہارا لیتے ہوئے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی بات ان تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر یقیناً امید کاچراغ جلانا ہے۔

ان کی تقریر کے دونکات جنہیں راقم سمجھتا ہے کہ غیرمعمولی پذیرائی ملنی چاہیئے تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔ یورپین اور امریکن فلمیں جو ہم اپنے بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں ۔ جس کو بلاتفریق پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہے۔ اس میں کبھی Rule of lawنہیں دکھایاجاتا ہے۔ ہمیشہ " ہیرو" قانون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ (معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف) اور پھر تمام دشمنوں کو اکیلے موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔

غلیظ زبان کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے اور ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور اختتام میں قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے بات چیت کرتے ہوئے فاتحانہ انداز میں ہیرو وہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔

کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا، کوئی قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوتا، گاڑیوں کی تباہی کے خلاف کوئی رپورٹ نہیں لکھوانے آتا اور ہیرو "امن کا داعی "قرار پاتا ہے۔ساری دنیا اس کی شیدائی ہوجاتی ہے۔

ایسے میں اگراصل زندگی میں کوئی عدم انصاف کی بدولت ناانصافی کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو اسے " ہیرو" کیوں نہیں قرار دیا جاتا ہے۔ جب " بین الاقوامی پیغام" ہی یہ ہے کہ اگرانصاف نہ ملے تو قانون اپنے ہاتھ میں لے لو اور انصاف حاصل کرلو۔تو پھر" دہشت گردی کا تمغہ" کیوں؟ کیا فلمی ہیرو کی طرح کردار ادا کرنے کا ہمیں " حق نہیں؟ ان انگزیزی فلموں کےدیکھا دیکھی ہندی ، تامل ، کورین اور اسی طرح اور زبانوں میں فلمیں اسی انداز میں بنتی ہیں۔ جس میں معاشرے کے بدمعاشوں (gangsters) کی شاہانہ زندگی سے آغاز کیا جاتا ہے۔

ساری اچھائیاں اور برائیوں کی بھرپور عکاسی کی جاتی ہے اور پھرہیرو ان کا قلعہ قمع کردیتا ہے۔ لیکن ابتداء سے اختتام تک جس طرح بدکلامی، عدم برداشت، فحاشی، مجرمانہ سرگرمیوں کو (Promote)فروغ دیا جاتا ہے۔ یقیناً اس کے اثرات معاشرے میں نظربھی آتے ہیں۔

اس لیے واضح طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فلمیں جنہیں صرف تفریح (Entertainment) کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اورسمجھاجاتاہے۔ اصل میں بدگوئی، بدکلامی، مغلظات، عدم برداشت سکھانے کی "نرسرسیاں "ہیں۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ زبان پر عبور نہ بھی ہولیکن عامیانہ غلیظ زبان پر مکمل عبور حاصل ہوتا ہے۔ اور اسی کے استعمال سے عدم برداشت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یقیناً ہمارے معاشرے اور ہماری طرح ہر معاشرے کے لیے یہ ناسور بن چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس ناسور کو (Recognize) مانا یا پہچانا نہیںگیا ہے۔ ابھی کچھ وقت لگے گا لیکن وزیراعظم نے بارش کا پہلاقطرہ ڈال دیا ہے۔ نفرت انگیز مفاد سوشل میڈیا سے نہیں فلموں سے کم کیجئے! آہستہ آہستہ نتیجہ آہی جائے گا ۔کوشش شرط ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین