کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا ہےکہ آزادی مارچ میں کسی قسم کا مذہبی کارڈ استعمال نہیں کریں گے۔
حکومتی اتحادی جماعتیں عوام کی آواز نہیں سنیں گی تو اپنی سیاسی پوزیشن کھودیں گی،سابق آئی جی سندھ شعیب سڈل نے کہا کہ اصولی طور پر پولیس آرڈر 2002 پورے ملک کیلئے ہے ،اگر پولیس کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی نیت ہو تو کارکردگی بہتر نہیں بنائی جاسکتی ہے۔
میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی کاروباری لابی اور کارپوریٹ سیکٹر نے نریندر مودی کو 2014ء کے انتخابات میں کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی یہی بااثر کاروباری افراد مودی کو اس بات پر مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ خطے سے کشیدگی کا خاتمہ کریں تاکہ جنگی ماحول ختم ہو۔
امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں تو اب تک نریندر مودی کو حالات کو معمول پر لانے کیلئے مجبور نہیں کرسکی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھرپور سفارتی کوششیں کررہا ہے۔
سب سے بڑے عالمی فورم پر بھی کشمیر پر کھل کر بات کی ہے لیکن صرف چین، ترکی اور ملائیشیا نے پاکستانی موقف کی ایک حد تک حمایت کی ہے جبکہ بڑے طاقتور ممالک نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جس پر وزیراعظم عمران خا ن نے بھی افسوس کا اظہار کیا اور دنیا کو احساس دلایا کہ کب تک آپ ایک ارب بیس کروڑ افراد کی مارکیٹ کے بارے میں سوچیں گے اور 80لاکھ انسانوں کا نہیں سوچیں گے۔
حکومت کی طرف سے بھرپور کوششیں کی گئیں مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا نے کچھ نہیں کرنا، لیکن سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا کشیدگی اسی طرح برقرار رہے گی، دو ایٹمی طاقتوں میں سرد جنگ جاری رہے گی یا صورتحال میں بہتری کا کوئی امکان ہے۔
امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں تو اب تک نریندر مودی کو حالات کو معمول پر لانے کیلئے مجبور نہیں کرسکی ہے لیکن ایک عنصر مودی کو اس کیلئے مجبور کرسکتا ہے، یہ عنصر بھارتی معیشت اور بااثر بزنس لابی ہے، اسی بھارتی کاروباری لابی اور کارپوریٹ سیکٹر نے نریندر مودی کو 2014ء کے انتخابات میں کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی یہی بااثر کاروباری افراد مودی کو اس بات پر مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ خطے سے کشیدگی کا خاتمہ کریں تاکہ جنگی ماحول ختم ہو، توجہ گرتی ہوئی معیشت پر ہو اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں۔
مئی 2014ء کو ایک برطانوی اخبار میں ایک آرٹیکل شائع ہوا جس کے مطابق ایک اندازہ ہے کہ مودی کی انتخابی مہم پر پانچ ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گئے، یہ اس طرح ممکن ہوا کہ بڑی کارپوریٹ شخصیات نے اپنا پورا وزن نریندر مودی کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
یہ شخصیات چاہتی تھیں کہ نریندر مودی ایک مضبوط لیڈر کی حیثیت سے کامیاب ہوں اور انہیں تمام سہولتیں پہنچاسکیں جس کے نتیجے میں ان کا کاروبار فروغ پائے، نریندر مودی کے شروع کے دو سال بہتر رہے مگر پھر ہوا یہ کہ نریندر مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہوگئی، وہ معیشت جس کی بحالی کیلئے مودی کو ووٹ ملا تھا وہ مزید خراب ہونے لگی، معیشت میں سست روی کی وجہ سے حال ہی میں حکومت نے ٹیکس میں کمی جیسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔
بھارتی میڈیا جو نریندر مودی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا ہے لیکن وہ بھی ان کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنارہا ہے، بین الاقوامی میڈیا اور ادارےبھی ہندوستان کی معاشی صورتحال پر تجزیے کررہے ہیں اوربھارتی معیشت کو خطرے میں قرار دے رہے ہیں، یہ سب کچھ مودی کی ڈی مونیٹرائزیشن پالیسی کی وجہ سے بھی ہوا ہے جسے بھارت کی سب سے بڑی معاشی غلطی قرار دیا جارہا ہے۔
2016ء میں بھارتی حکومت نے بلیک مارکیٹ کے خاتمے کیلئے 86فیصد کیش واپس لے لیا تھا، اس کے سات ماہ بعد مودی حکومت نے چھوٹے تاجروں پر جی ایس ٹی نافذ کردیا جس کی وجہ سے معاشی سست روی مزید بڑھ گئی اور وزیراعظم مودی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
نریندر مودی نے اس دباؤ کو ختم کرنے کیلئے انتخابی مہم کو پاکستان مخالف مہم میں تبدیل کیا، معیشت کے اصل ایشو کو دبا کر جعلی خبروں کا سہارا لیا جس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ گئی اور مودی ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مودی نے کارپوریٹ سیکٹر کو سنہرے خواب دکھائے کہ کشمیر میں کارپوریٹ سیکٹر کو زمین خریدنے اور کاروبار بڑھانے کا موقع ملے گا، مگر معیشت کی سست روی کی وجہ سے کوئی سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں ہے، اس صورتحال میں بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر صورتحال کو معمول پر لانے اور معیشت کیلئے سازگار ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
نریندر مودی جب پاکستان آئے تو اس کے پیچھے بھی طاقتور کاروباری شخصیت اور اسٹیل ٹائیکون سجن جندال نے اپنا کردا رادا کیا تھا، 25 دسمبر 2015ء کو جب مودی اچانک پاکستان آئے اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے گھر چلے گئے تو سب حیران ہوگئے کہ یہ کیسے ہوا، بعد میں پتا چلا کہ نریندر مودی کے اس دورے کے پیچھے بھی جندال نے اپنا کردار ادا کیا جن کا اسٹیل کا کاروبار ہے، وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں ۔