• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی ریاست ٹیکساس میں گزشتہ دنوں ہونے والے جلسے ’’ہائوڈی موڈی‘‘ میں مودی کے ہمراہ امریکی صدر ٹرمپ کی شرکت کو امریکی اپوزیشن تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔ مودی نے اس جلسے کو ٹرمپ کی انتخابی مہم قرار دیا تھا۔

جلسے میں مودی نے اپنی تقریر میں پاکستان کا نام لئے بغیر یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ ’’امریکہ کے نائن الیون حملوں اور ممبئی بم حملوں میں ایک ہی ملک ملوث تھا‘‘۔ جلسے سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے بھی یہ الزام لگایا کہ ’’پاکستان نے بھارت اور امریکہ میں حملہ کرنے والوں کو پناہ دی‘‘۔

اس جلسے میں امریکہ میں مقیم امریکی نژاد بھارتی شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور بھارت نے ٹرمپ، مودی کے مشترکہ جلسے کو فتح سے تعبیر کرتے ہوئے اِسے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک قرار دیا۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکساس جلسے میں ٹرمپ کی شرکت اور مودی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی جس پر ٹرمپ خاموش تماشائی بنے رہے، سے بھارتیوں کی حوصلہ افزائی اور پاکستانیوں کی دل آزاری ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی امریکی صدر نے امریکہ میں مہمان ملک کے سربراہ اور اُس ملک سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کے جلسے میں شرکت کی ہو۔

اس جلسے میں مودی نے ٹرمپ کا ہاتھ تھام کر جلسہ گاہ کے پھیرے بھی لگائے جس سے ٹرمپ مودی کی قربت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر بھارتیوں کو اگلے روز اُس وقت مایوسی اور حیرانی کا سامنا کرنا پڑا جب ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات میں پاکستان کو ’’عظیم ملک‘‘ اور عمران خان کو اپنا ’’قریبی دوست‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستانی عظیم قوم ہیں اور اُن کے بہت سے پاکستانی دوست ہیں‘‘۔

ٹرمپ نے اِس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ’’مودی نے جلسے میں پاکستان کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی جو مودی کو نہیں کرنا چاہئے تھی‘‘۔ امریکی صدر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’’پاکستان کے ساتھ گزشتہ امریکی دورِ حکومت میں ناانصافیاں ہوئیں مگر اب وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

اس موقع پر ٹرمپ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت امریکی ثالثی پر راضی نہیں، ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی اور کہا کہ ’’میں اچھا ثالث ثابت ہوں گا‘‘ مگر اس موقع پر ایک صحافی کے سوال کہ ’’امریکہ، مقبوضہ کشمیر میں نافذ ظالمانہ کرفیو، غیر قانونی گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوانے میں کیا کردار ادا کررہا ہے؟‘‘ پر ٹرمپ طنزیہ انداز میں یہ کہہ کر سوال گول کرگئے کہ ’’آپ اِس ذہین صحافی کو کہاں سے لائے ہیں؟‘‘۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹرمپ اس بات کا یقین دلاتے کہ وہ مودی پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کروانے پر زور دیں گے لیکن ٹرمپ نے روایتی بےحسی کا مظاہرہ کیا اور عمران خان، ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر اس خوش فہمی میں وائٹ ہائوس سے نکلے کہ امریکہ اور ٹرمپ، پاکستان کے حقیقی دوست ہیں۔

اس سے قبل بھی جولائی میں ٹرمپ نے عمران خان سے اپنی پہلی ملاقات میں اُنہیں ’’عظیم دوست‘‘ اور ’’لیڈر‘‘ قرار دیتے ہوئے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی جس پر پوری پاکستانی قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی تھی کہ امریکہ واقعی مسئلہ کشمیر حل کرانا چاہتا ہے لیکن کچھ دنوں بعد مودی نے کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

آئندہ سال امریکی انتخابات سے قبل امریکہ کو اپنی افواج افغانستان سے نکالنے کیلئے پاکستان کی اشد ضرورت ہے تاکہ امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا بحفاظت اور باوقار طریقے سے یقینی بنایا جاسکے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ آج انسانیت سے زیادہ تجارت اور کاروباری مفادات بڑی طاقتوں کا مذہب بن گئے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ امریکہ خطے میں بھارت کو چوہدری کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے تاکہ بھارت خطے کے دو پڑوسی ممالک چین اور پاکستان پر اپنی بالادستی قائم کرسکے۔

امریکہ، بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بھی دیکھنا چاہتا ہے تاکہ بھارت خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ٹرمپ کی یہ بھی خواہش ہے کہ انہیں ’’نوبل انعام‘‘ کیلئے نامزد کیا جائے۔ انہیں پاکستان اور اس کے رہنمائوں کی پروا نہیں۔

امریکہ اور بھارت پہلے دن سے ہی سی پیک منصوبے کے مخالف رہے ہیں مگر افسوس کہ ہم نے ایک بار پھر امریکی خوشنودی کیلئے سی پیک منصوبے کو سست روی کا شکار کردیا جس سے چین یقیناً خوش نہیں۔پاکستانی حکمرانوں کی ہمیشہ یہ کمزوری رہی ہے کہ اگر کوئی امریکی صدر وائٹ ہائوس بلاکر ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھ دے یا ہماری ذرا سی تعریف کردے تو ہم پھولے نہیں سماتے اور امریکہ کو اپنا قریبی دوست اور خیر خواہ تصور کرنے لگتے ہیں۔

ماضی میں حکمرانوں نے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کئی ایسے فیصلے کئے جن پر آج بھی ہمیں پچھتاوا ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکہ کو وہ کچھ پیش کردیا جو اُس نے مانگا بھی نہیں تھا اور ملکی خود مختاری کے خلاف تھا۔ بعد میں امریکہ نے ہم سے کس طرح آنکھیں پھیریں، یہ سب کچھ دنیا کے سامنے ہے۔

تازہ ترین