• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ ایک بار پھر مخالفین کے گھیرے میں آرہے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے بیشتر اعلیٰ افسران اس معاملے میں گومگو کا شکار ہیں۔ دراصل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما نینسی پلوسی نے کہا کہ صدر نے یوکرین کے صدر کو فون کرکے سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے صاحبزادے ہنٹربائیڈن جو اس وقت یوکرین کی ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں، صدر ٹرمپ نے ان کے بارے میں تفتیش کرکے ذاتی معلومات جمع کرنے کو کہا۔

صدر ٹرمپ جوبائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے بارے میں ذاتی معلومات جمع کرنے کی بات اس لئے کی کہ ہنٹربائیڈن آئندہ صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک کی طرف سے صدر کے الیکشن کے امیدوار ہوں گے۔ اس وقت کے جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کی پوزیشن قدرے بہتر ہے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کےبعد سیاسی ذاتی و سماجی رویوں کی وجہ سے ان کا گراف نیچے آرہا ہے۔

امریکا کی سیاسی تاریخ میں اب تک تین صدور کو مواخذے سے گزرنا پڑا مگر کوئی صدر اس عمل سے صدارت سے محروم نہیں ہوا

سب سے پہلے صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی ایف آئی اے کے سربراہ صدرسے ناچاقی ہوگئی تھی۔ ایف آئی اے کےسربراہ جیمز کومی اس وقت قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کے روس سے تعلقات کے بارے میں تفتیش کررہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے جیمز کومی کو ہدایت کی کہ وہ مائیکل فلن کے خلاف تحقیقات ختم کردیں۔

امریکا میں ہمیشہ صدر دوسری ٹرم میں الیکشن جیت جاتا ہے۔ اس روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ محفوظ دکھائی دیتے ہیں اور اب قدرے اعتماد سے بات کرنے لگے ہیں

اس کا پس منظر یہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اوول آفس میں روس کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی جس کے بارےمیں انہوں نے بات چیت کا مکمل متن بتانے سے انکار کیا اور کہا یہ صرف داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات چاہتے تھے۔ ایف آئی اے اور سیکورٹی اداروں کا کہنا تھا کہ بات چیت میں اور بھی بات ہوئی ہے جو صدر ٹرمپ بتانے سے انکاری ہیں۔ 

اس حوالے سے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کے روس سے تعلقات کے بارے میں تفتیش کی جارہی تھی۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کومی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس اہم ترین عہدے پر فائز رہنے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ نسیان کی بیماری کی ابتدائی شکل سے گزر رہے ہیں۔

ڈیموکریٹ سینیٹرز نے کہا ہے کہ صدر نے اپنی تمام حدیں پار کرلی ہیں، اس لیے ان کا مواخذہ ضروری ہے

دوسری طرف ان پر یہ بھی الزام آیا ہے کہ ان کے خلاف تفتیش ہونے پر انہوں نے اپنے سیاسی حریف کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے ایک بیرونی ملک پر دبائو ڈالا، جبکہ ماضی میں ان پر یہ بھی الزام رہا ہے کہ بیشتر خواتین کو جن سے ان کے تعلقات تھے، ان کو بڑی رقوم دے کر چپ کرایا گیا،مگر اب یوکرین کے صدر کے ٹیلیفون کے معاملے کو لے کر وائٹ ہاؤس کی سیکورٹی کے چند اعلیٰ افسران اور ڈیموکریٹک پارٹی صدر کے مواخذے پر زور دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی صدر ٹرمپ کے مواخذے کا شور ہوا تھا مگر اب یوکرین کے صدر سے بات چیت کی فون کال کی ٹیپ پکڑی گئی ہے جس پر تفتیش جاری ہے اور ایک بار پھر صدر کو مواخذے کا خدشہ ہے۔

امریکی آئین کے مطابق سینٹ کو امریکی صدر ، نائب صدر اور حکومت کے اعلیٰ افسران و عہدیداران کا مواخذہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ صرف امریکی آئین میں ہے کہ سینٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ناجائز مالی فائدہ اٹھانا، اختیارات کا ناجائز استعمال، غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونے پر مواخذہ کرے۔ 

ڈیموکریٹ رہنما نینسی پلوسی کے صدر کے خلاف بیان پر اور مواخذے کے مطالبہ پر صدر ٹرمپ نے سختی سے کہا کہ یہ صرف ان کے اقوام متحدہ کے دوران جاری مصروفیات کو خراب کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے نینسی کے الزامات کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں۔ امریکی آئین کے تحت کوئی بھی رکن امریکی ایوان کو درخواست دے سکتا ہے اگر اس کی درخواست میں تحریر کیے گئے الزامات درست پائے جاتے ہیں تو بعدازتفتیش درخواست سینٹ کی کمیٹی کے سپرد کردی جاتی ہے۔ قانونی کمیٹی اس پر غور کرتی ہے اس کے بعد ووٹنگ ہوتی ہے اور فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ 

ہر چند کہ یہ طریقہ قدرے پیچیدہ ہے مگر آئین اور قانون کے ضابطوں کے مطابق اس پر عمل کیا جاتا ہے اس لئے طریقہ کار کو موثر اور شفاف تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر ولاریمیرزیلنسکی کے ساتھ فون پر بات کی تھی مگر وہ بائیڈن کے بیٹے کے بارے میں نہیں تھی۔ اس بارے میں ان سے مزید پوچھا گیاتو صدر ٹرمپ باقی بات گول کرگئے۔

صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ڈیموکریٹ سینیٹرز نے زور دیا ہے کہ صدرنے اپنی تمام حدیں پار کرلی ہیں اس لئے ان کا مواخذہ ضروری ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے مخالفین کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف مواخذہ ہوا تو دنیا کی مارکیٹ مندی کا شکار ہوجائے گی اور بہت نقصان ہوگا، مگر میرے خلاف کچھ نہیں نکلے گا، جبکہ وال اسٹریٹ جرنل کے ذرائع کہتے ہیں صدر ٹرمپ نے آٹھ بار اپنے وکیل پر زور دیا تھا کہ ہنٹربائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کردو، مگر اس کے بدلے میں اس کو کیا دیں گے کچھ نہیں بتایا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ یوکرین کے صدر کو ان کا کام نہ کرنے پر ان کی فوجی مدد ختم کردیں گے۔ 

صدر ٹرمپ کے قریبی قانونی مشیر اس تمام معاملے کو ذہنی ایذا رسانی قرار دیتے ہیں کہ مخالفین ایسا کچھ پہلے بھی کرتے رہے ہیں، مگر ڈیموکریٹک پارٹی اس کو مسترد کرتی ہے اور حقائق کو سامنے لانے پر زور دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بائیڈن خاندان کے افراد نے صدر ٹرمپ کے الزامات کو رد کردیا ہے اور اس عمل کی مذمت کی ہے۔

امریکی آئین ایک مکمل اور قدامت پسند روایات کا مجموعہ ہے اس میں فرد کی آزادی کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ امریکا کی سیاسی تاریخ میں اب تک تین صدور کو مواخذے سے گزرنا پڑا مگر کوئی صدر اس عمل سے صدارت سے محروم نہیں ہوا۔

پہلی بار امریکا کے 17ویں صدر اینڈریو جانسن کو مواخذے سے گزرنا پڑا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کابینہ کے ایک رکن کو اس کی مدت پوری ہونے سے قبل برطرف کردیا تھا ۔ ان پر مقدمہ بنا معاملہ سینٹ میں آیا مگر دو ووٹ سے رہ گیا اور صدر بچ گئے۔

امریکا کے 37ویں صدر رچرڈ نکسن پر ،واٹر گیٹ اسکینڈل کا کیس بنا جس کی بہت زیادہ تشہیر ہوئی اور تحقیقات بھی ہوئیں، ان پر مواخذے کا مقدمہ بن گیا مگر اس سے قبل صدر نکسن 1973میں استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔

امریکاکے 42ویں صدر، بل کلنٹن پر ان کی میڈیا ایڈوائزر مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات کے چرچے زور پکڑتے چلے گئے اور اس ضمن میں انہیں دونوں ایوانوں کی کمیٹیوں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑا، پھر یہ معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور صدر کلنٹن بچ گئے۔

اب صدر ٹرمپ گرداب میں پھنس گئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ بہت ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، مگر مخالفین بھی پوری پھرتی دکھا رہے ہیں۔تاہم امریکا کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ صدر دوسری ٹرم میں الیکشن جیت جاتا ہے۔ اس روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ محفوظ دکھائی دیتے ہیں اور اب قدرے اعتماد سے بات کرنے لگے ہیں۔

یہ درست ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد بہت سی غلطیاں کی ہیں، ان کا رویہ اکھڑ رہا، بے سروپا جملے بھی کستے رہے، خواتین سے میل ملاپ کے چرچے بھی رہے اور اب سیاسی میدان میں بھی انہیں بڑے معرکوں کا سامنا ہے، خصوصاً چین سے جاری تجارتی کشیدگی بڑا معرکہ ہے، مگر ان تمام خدشات اور معرکوں کے باوجود اگر وہ صحت مند اور چاق چوبند رہے تو امریکی صدر کی دوسری ٹرم کی دوڑ میں بھی جیت جائیں گے۔

تازہ ترین