• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیدر آباد دکن کے نواب نظام میر عثمان علی نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی معاشی مدد کے لئے ایک خطیر رقم لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے اکائونٹ میں جمع کرائی تھی۔ اس رقم کی مالیت پونے سات ارب بنتی ہے، اس رقم کی منتقلی سے متعلق میر عثمان علی کے ورثا نے برطانوی عدالت سے رجوع کیا جس کے نتیجے میں منتقلی موقوف ہو گئی لیکن پاکستان جو پائی پائی کا ضرورت مند رہا ہے، اتنی خطیر رقم کے بارے میں لاپروائی برتتا رہا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ اکہتر برس ہماری سستی اور کاہلی کے سبب پاکستان کے خلاف عدالت نے فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ نظا م دکن کے وارث مکرم جاہ اور فرخ جاہ مقدمہ جیت گئے ہیں۔ دراصل مقدمہ وارثین سے زیادہ بھارتی حکومت کی پھرتی اور بھرپور دلچسپی نے جتوایا ہے۔ اس لیے ہی مکرم جاہ اور فرخ جاہ کے ساتھ بھارت بھی اس ورثے میں شریک ہوگا۔ برطانوی عدالت کےاس فیصلے پر پاکستانی وزارتِ خارجہ نے جو بیان دیا ہے وہ یہ کہ فیصلے میں رقم کی منتقلی کی تاریخ کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو کیا یہ کام عدالت کا تھا یا آپ کے وکلا کا کہ وہ عدالت کو یہ باور کراتے کہ بھارت نے جب عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ریاستِ حیدر آباد دکن کے نظام کی مرضی و منظوری کے خلاف زبردستی دکن کو بھارت کا حصہ بنانے کی کوشش شروع کی، تب نظام دکن نے اپنی ریاست اور عوام کو تحفظ دینے اور بھارتی جارحیت سے بچنے کے لیے یہ خطیر رقم اپنے وزیر خزانہ معین الین جنگ کے ذریعہ دس لاکھ پونڈ کی صورت 1948ء میں پاکستانی ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے نیٹ ویسٹ بینک اکائونٹ میں جمع کرائی تھی۔ عدالت نے اس پر پاکستان کےدعویٰ کو ردّ کر دیا ہے۔ فیصلہ پاکستان مخالف اور بھارت کے حق میں صادر کر دیا ہے۔ پاکستان کے پاس اب بھی موقع ہے اور اپیل کر سکتا ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اپنی سستی اور کاہلی کے سبب یہ موقع بھی گنوا دیں گے۔

یقیناً نظام دکن میر عثمان علی کی سوچ ان کے قائداعظم اور ان کی قیادت پر اطمینان اور بھروسے کا مظہر تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان سے الحاق اُن کا حق تھا، جسے بھارت نے اپنی جارحیت کے ذریعے چھین لیا، اس کے باوجود وہ اپنے تحفظ اور پاکستان سے ہمدردی کے ناتے سب کر گزرے لیکن ہماری لاپروائی نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ یہ وہی وقت تھا جب نواب بہاولپور نے اپنے خزانے کا منہ ریاستِ پاکستان کے لیے کھول دیا تھا اور بے دریغ اپنی املاک، اپنے اثاثے، اپنا اقتدار سب پاکستان کے نام پر وار دیا تھا لیکن قائداعظم کے بعد آنے والوں نے کسی کی قدر نہیں کی۔ نظام حیدر آباد دکن اور نواب صاحب بہاولپور دونوں ہی اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان سے مخلص تھے۔ ان کےاحسانات کو بعد میں آنے والوں نے بھلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شاید اس کی ہی سزا دی ہے کہ ہم پے درپے مشکلات میں مبتلا رہتے ہیں۔ پاکستان سے بعد میں آزاد ہونے والا چین جس کی آبادی بھی ایک ارب سے زیادہ تھی اور وہ ملک اس وقت تک افیون کے نشے کا عادی تھا اور پاکستان کی آبادی تب دس کروڑ کے لگ بھگ تھی، چین آج کہاں پہنچ چکا ہے اور ہم آج بھی دوسروں کے آگے دستِ سوال پھیلائے کھڑے ہیں۔

یہ ہماری نااہلی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس نااہلی میں ہمارے اکابرینِ سیاست کے علاوہ غیر مسلم دنیا کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے جو مسلمانوں کو کسی بھی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ کلیسائی طاقتوں نے پاکستان ہی نہیں تمام مسلم ریاستوں کو اپنے نشانے پر رکھا ہواہے۔ یہ اسلام دشمن قوتیں مسلم اُمہ کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں۔ اپنی سازشوں اور چال بازیوں سے اُن کی معیشت پر قبضہ کرکے ان کی سیاست و اقتدار ایسے مفاد پرستوں کے ہاتھوں دے دیتی ہیں جو ان کے بے دام غلام بنے رہیں تاکہ مسلم ممالک اُن کے ماتحت غلام بنے رہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان ابھی پسماندہ ہے جب تک کوئی مخلص محبِ وطن قیادت جو اغیار کےسامنے سر جھکانے سے انکار کر سکے، پاکستان کے عوام کو میسر نہیں آتی، پاکستان یونہی اوروں کی طرف دیکھتا رہے گا۔ اللہ وہ دن جلد لائے جب اہلِ پاکستان کی حمیت و غیرت جاگ جائے اور وہ اپنے بھلے برے کی پہچان کر سکیں۔ اپنے وطن کو اپنے دیدہ نادیدہ دشمنوں سے بچا سکیں، اپنی انفرادی ذمہ داریوں کا احساس کر سکیں۔ تب ہی وطن عزیز خوش حالی، خود مختاری اور خود انحصاری کی منزل پا سکے گا۔ دراصل ہمارے دشمنوں نے ہمیں کمزور کرنے اور ہم پر قبضہ رکھنے کی ہر طرح کی کوششوں میں کسی طرح کی کمی کی، نہ کبھی کریں گے۔ اللہ ہماری ہمارے وطن عزیز کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے۔ آمین!

تازہ ترین