• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں ماہ سات اکتوبر کو بالآخر امریکا نے ترکی کے اس مطالبے پر رضامندی کا اظہار کردیا کہ ترک افواج شام کے شمال مشرق میں کارروائی کریں گی۔ اس اعلان کے مطابق امریکا ترکی کی جانب سے شام میں کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ اب اس بات کا خدشہ ہے کہ ترک افواج بے دھڑک شام کے شمال مشرقی علاقوں میں عسکری کارروائیاں کرے گی۔

  • ترکی یہ وعدہ کرتا رہا ہے کہ وہ شام کے شمالی علاقوں میں ایک محفوظ خطہ بنائے گا تاکہ بیس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو اس خطے میں مستقل کردیاجائے

امریکی رضا مندی کا پس منظر یہ ہے کہ، ترک صدر اردوان گزشتہ کئی ماہ سے اس بات کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ شام میں کرد چھاپہ ماروں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔دراصل ترکی کے خیال میں کرد پیش مر گاہ دہشت گرد گروہ ہے، اسے وائی پی جی (YPG) کہا جاتا ہے جس کا پورا نام ہے وحداتِ حمایت شعب یعنی عوامی تحفظ کی وحدتیں یا اکائیاں۔ 

یہ کرد چھاپہ مار زیادہ تر شام کی جمہوری افواج (SDF) کا حصہ ہیں۔ یہ افواج شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے والے ایک اتحاد پر مشتمل ہیں ،جن میں عرب، کرد اور سریانی گروہوں کے علاوہ آرمین، ترکمین اور چیچنیا سے تعلق رکھنے والے جنگ جو شامل ہیں۔

  • روسی طیارے اور شامی افواج ادلب میں باغی اور جہادی جنگ جو عناصر کو نشانہ بنا رہی ہیں اور خود ترکی وہاں کے کچھ باغی گروہوں کی حمایت بھی کرتا رہا ہے

وائی پی جی کو 2004 میں تشکیل دیا گیا تھا، جب اس نے کردوں کی بائیں بازوؤں کی جماعت جمہوری اتحاد پارٹی یا ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے مسلح شعبے کا روپ دھارا۔ اس پارٹی کو حزب الاتحاد بھی کہا جاتا ہے جو شمالی شام میں 2003سے کام کررہی ہے۔ 

ترکی کرد پیش مرگاہ (YPG)شام میں دولت اسلامیہ کے لڑاکا دستوں کے خلاف امریکا کے ساتھ لڑتا رہا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا ان دستوں کے خلاف ترک کارروائی کا شروع میں حامی نہیں تھا لیکن اب امریکا کا کہنا ہے کہ ترکی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے جنگ جو قیدیوں کی بھی ذمہ داری سنبھال لے گا۔ یہ وہ جنگ جو ہیں جنہیں گزشتہ دو برس کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اب امریکی صدر کے اس اعلان اور فیصلے سے ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی کسی بھی بات کا بھروسا کرنا خاصا مشکل ہے، کیوں کہ جلد یا بدیر وہ ایسا یوٹرن لیتے ہیں کے دوست اور دشمن سب ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے تک صدر ٹرمپ نے دھمکیاں دی تھیں کہ اگر ترکی نے امریکی فوجوں کے نکلنے کے بعد کرد افواج پر حملہ کیا تو امریکا ترکی کو شدید معاشی زک پہنچائے گا۔ 

تاہم تازہ ترین اعلان میں امریکا نے پیش مرگاہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے،ساتھ ہی امریکا نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکی افواج ترک عسکری کارروائی میں حصہ نہیں لے گی ،کیوں کہ امریکا نے دولت اسلامیہ کو شکست دے دی ہے، اس لئے اب امریکی کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔گو کہ دولت اسلامیہ کو شکست دینے میں بڑا کردار شام اور روس نے بھی ادا کیا تھا لیکن امریکا سارا سہرا خود اپنے سر باندھتا ہے۔ 

واضح رہے کہ دولت اسلامیہ کے جنگ جو گروہوں میں فرانس اور جرمنی وغیرہ سے آنے والے غیرملکی بھی شامل تھے، جن میں ڈھائی ہزار کو پکڑ لیا گیا تھا اب یورپی ممالک ان جنگ جو عناصر کو واپس قبول کرنے سے انکاری ہیں، جب کہ امریکا یورپی ممالک پر زور ڈالتا رہا ہے کہ ان جنگ جوئوں کو واپس تسلیم کیا جائے۔ حیرت ہے کہ امریکا کو ان سے اس قدر ہمدردی کیسے ہوگئی ہے۔

ترکی یہ وعدہ کرتا رہا ہے کہ وہ شام کے شمالی علاقوں میں ایک محفوظ خطہ بنائے گا تاکہ بیس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو اس خطے میں مستقل کردیاجائے۔ترکی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ملک میں اس وقت پینتیس سے چالیس لاکھ تک شامی پناہ گزین موجود ہیں۔

پہلے صدر اردوان کی کوشش تھی کہ اگست میں شام اور ترکی کی سرحد پر ایک ایسا محفوظ خطہ یا بفرزون قائم کردیا جائے مگر اس وقت ترکی کو امریکی رضا مندی میسر نہیں تھی۔ ترک وائی پی جی شامی کردوں سے ذرا مختلف ہے، کیوں کہ ایسے کردستان ورکرزکو پارٹی کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ ترکی کا الزام ہے کہ یہ پیش مرگاہ دراصل کردستان ورکر پارٹی کی مدد کرتے ہیں، جسے پی کے کے( PKK )کہا جاتا ہے۔

پی کے کے بھی ایک انتہائی بائیں بازو کی سیاسی جماعت ہے جو ترکی اور عراق میں بھی سرگرم ہے مگر پچھلے پینتیس سال سے پی کے کے، ترک ریاست سے بھی برسرپیکار ہے۔ شروع میں تو پی کے کے ترکی میں کرد علاقوں کو الگ کرکے ایک آزاد ریاست بنانے کی کوشش میں تھے مگر ایک عارضی صلح کے بعد انہوں نے ترکی کے اندر ہی ایک نیم خود مختار علاقے کا مطالبہ کیا ہے۔

اصل میں امریکا کے عراق پر حملے کے بعد جو نیا عراقی آئین بنایا گیا اس میں کرد علاقوں کو بڑی حد تک خود مختاری دے دی گئی ہے، اس لئے اب دیگر ممالک کے کرد بھی اس کوشش میں ہیں کہ انہیں ترکی اور شام وغیرہ میں بھی نیم خودمختاری مل جائے۔ اس سے قبل ترکی دو مرتبہ شام میں بڑی فوجی کارروائیاں کرچکا ہے ایک تو 2016میں دولت اسلامیہ کے خلاف اور دوسرے 2018میں وائی پی جی کے خلاف۔ 

ابھی ایک ماہ قبل ہی ترکی نے شامی مہاجرین کے داخلے پر یورپ کو خبردار کیا تھا کہ اگر شمالی شام میں شامی پناہ گزینوں کے لئے محفوظ خطہ بنانے کے لئے ترکی کی حمایت نہیں کی گئی تو وہ شام کے باشندوں کو یورپ جانے کی اجازت دے دے گا، جس سے ایک بار پھر یورپ میں پناہ گزینوں کا بحران شروع ہوجائے گا۔

ترک صدر اردوان اپنی اس کارروائی سے، دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک تو وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ کم از کم دس لاکھ شامی باشندوں کو واپس شام بھیج کر شام اور ترکی سرحد پر چار سو پچاس کلو میٹر طویل حصے پر انہیں آباد کریں گے۔ 

اس کے لئے وہ شامی علاقے میں تیس چالیس کلو میٹر اندر تک جاکر مکانات تعمیر کرانا چاہتے ہیں،لیکن ترکی صدر کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس طرح ترکی میں کرد آزادی کی تحریک کو شامی سرحد پر تیس چالیس کلو میٹر اندر تک ترک افواج موجود ہوں گی تو وہ کردوں پر سخت نظر رکھیں گی اور پابندیاں بھی لگائیں گی۔

دوسری طرف شام کے کردوں کا الزام ہے کہ دراصل ترکی اس بہانے بہت سے ایسے لوگوں کو شام کے شمالی علاقے میں آباد کرنا چاہتا ہے جو اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس لئے شام کی کرد افواج اس عمل کی مخالفت کررہی ہیں۔

ترکی اب یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکی افواج مشترکہ طور پر اس محفوظ زون یا خطے کی رکھوالی کرے۔ پھر شامی صوبے ادلب سے مزید پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے جو ترکی کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔

روسی طیارے اور شامی افواج ادلب میں باغی اور جہادی جنگ جو عناصر کو نشانہ بنا تو رہی ہیں اور خود ترکی وہاں کے کچھ باغی گروہوں کی حمایت بھی کرتا رہا ہے۔ 

یاد رہے کہ 2016میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت یورپی یونین نے ترکی سے وعدہ لیا تھا کہ ترکی تارکین وطن کو یورپ جانے سے روکے گا اور اس کے لئے یورپی یونین ترکی کو چھ ارب یورو کی امداد دے گا۔

اب تین سال گزرنے کے بعد صدر اردوان شکایت کرتے ہیں، یورپی یونین نے ترکی کو صرف تین ارب یورو ادا کئے ہیں، جبکہ یورپی یونین کا دعویٰ ہے کہ وہ پانچ ارب یورو تک ادا کرچکے ہیں۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ،شام کا شمال مشرقی علاقہ مکمل طور پر کردوں کے قبضے میں ہے۔ وسطی، جنوبی اور مغربی شام کے علاقے شام کی سرکاری افواج کے پاس ہیں یعنی دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے قابو میں ہیں، جب کہ شمال مغربی شام کا علاقہ جو ترکی سے ملحقہ ہے اس کی سرحد پر ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغی گروہ اور خود ترک افواج قابض ہیں، جب کہ ادلب کے گرد و نواح کا علاقہ جہادیوں اور دیگر شامی باغیوں کے پاس ہے۔

اب امریکی مفاہمت سے ترکی شام میں شمال مغربی علاقوں میں کارروائی کرے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس اور ایران کس ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

تازہ ترین