• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنڈنگ پر پاکستان کی کوششیں اطمینان بخش نہیں، رپورٹ

اسلام آباد (عمرچیمہ) گزشتہ پانچ سال میں پانچ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے منی لانڈرنگ سے متعلقہ2420کیسزکی تحقیقات کیں اورقومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات میں صرف ایک ملزم،نواز شریف، کو مجرم قرار دیا گیا۔ 

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے ملحقہ ایشیاءپیسیفک گروپ کی جانب سے مرتب کیےگئے اعدودشمار میں پیر کومنی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ سے نمٹنے والے اداروں کی خراب کارکردگی کی ایک انوکھی جھلک دکھائی گئی ہے۔ احتساب کےپورے نظام کومودرِالزام ٹھرانےوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’پاکستانی اتھارٹیزکی منی لانڈرنگ اورٹیررفنانسنگ سےمتعلق سمجھ بوجھ مختلف ہے۔ منی لانڈرنگ کیلئے، پاکستان کواس سے لاحق خطرے کی مجاز اتھارٹیزبشمول قانون نافذکرنےوالےاداروں کوکوئی واضح سمجھ نہیں ہے۔ 

مجاز اتھارٹیز صرف اگلے جرائم پر توجہ دے رہی ہے اور اِن جرائم سےمنی لانڈرنگ، جس سےغیرقانونی رقم آتی ہے،کوواضح طورپرالگ کرنےکےقابل نہیں ہیں۔‘‘اے جی پی نےدو طرح کی ریٹنگ کی ہیں۔

’’ایفکٹونس ریٹنگز‘‘ کےحوالےسےپاکستان نےدس کیٹاگریزمیں ’کم‘ سکورکیااورایک کیٹاگری میں ’’درمیانہ‘‘سکور کیا۔ ’’ٹیکنیکل کمپلائینس ریٹنگ‘‘میں پاکستان ایک کیٹاگری میں ’’کمپلائینٹ‘‘ تھا، نو کیٹاگریزمیں ’’لارج لی کمپلائینٹ‘‘ ، 26کیٹاگریز میں ’’جزوی کمپلائینٹ‘‘ اور چار کیٹاگریز میں ’’نان کمپلائینٹ‘‘ تھا۔

2013اور2018 کےدرمیان نیب، اینٹی نارکوٹکس فورس، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی، کسٹم اور ان لینڈ ریوینیوکی جانب سےمنی لانڈرنگ کے 2420مقدمات کی تحقیقات کی گئیں۔14فیصد مقدمات پراسیکیوشن مرحلے تک پہنچے اور صرف نواز شریف کو سزا دی گئی جن کا کیس سپریم کورٹ کی زیرِ نگرانی ترجیحی بنیادوں پر نمٹایاگیا۔ 

نیب نے کل 32ایسے مقدمات کی تحقیقات کیں اور ان میں سے چار کےخلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی۔ نواز شریف کا کیس ان میں سے ایک تھا۔ سب سے زیادہ منی لانڈرنگ کے مقدمات (1528)کی تحقیقات اےاین ایف نے کیں اس کے بعد ایف بی آر اِن لینڈ ریوینیو(510)، ایف آئی اے(346)، نیب(32) اور کسٹم(4)مقدمات کی تحقیقات کیں۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے،’’کچھ طرح کے جرائم کیلئےمنی لانڈرنگ کی اتنی زیادہ تحقیقات، خاص طورپر منشیات فروشی اور ٹیکس کے مقدمات، کےباوجودکچھ اہم جزوی جرائم کیلئے پراسیکیوشن کی کم سطح اورمنی لانڈرنگ کیلئےصرف ایک سزا،اس سےپتہ لگتا ہے کہ تحقیقات کے مرحلےجمع کیے گئے ثبوت کافی نہیں تھےکہ اُن سے پراسیکیوشن اورسزاکی شرح بہترہوسکتی۔‘‘ 

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ سےمتعلقہ جرائم سے نمٹنے کیلئے ایجنسیوں کی کوشیشیں اس کے خطرات کےباعث مستقل نہیں ہیں۔ نتائج کےمختلف پہلومندرجہ ذیل ہیں، (1) ان ایجنسیوں کی جانب سے منی لانڈنگ کی ترجیحات میں کمی، (2) مالی تحقیقات کی کوئی منظم پیروی نہیں ہوتی، (3) ان ایجنسیوں اوردیگراتھارٹیزمیں منی لانڈرنگ کی نوعیت کے حوالے سے’قابلِ دست اندازی‘ اور ناقابلِ داست اندازی‘ والےجرائم میں سنجیدہ نوعیت کی بوکھلاہٹ پائی جاتی ہے اور (4) مکمل طورپر ایسے مقدمات سے نمٹنےکیلئے صلاحیت کی کمی ہے اور فارنسک تحقیقات میں مہارت کی بھی کمی ہے۔ 

مجموعی طورپر رپورٹ میں مزید کہاگیاہے کہ پرائیوٹ سیکٹر میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کےپاعث پاکستان کولاحق خطرات سےمتعلق ملی جلی سمجھ بوجھ ہے۔ جبکہ بنکوں اورایکسچینج کمپنیوں کواِن خطرات سےمتعلق بہترسمجھ ہےجبکہ غیربنکاری مالی اداروں کی سمجھ محدودہےاوران کا نفاذ کا طریقہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ڈیزِگنیٹڈنان فنانشل بزنس اینڈ پروفیشنز(ڈی این ایف بی پی) جیسے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس، قیمتی پتھروں کے ڈیلرز، وکلاء، نوٹریز، اکائونٹنٹس اور دیگر سروس فراہم کنندگان، منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانس میں سہولت کار ہیں اور اِن خطرات کےبارے میں کم سمجھ رکھتے ہیں اور انھوں نےرسک پر مبنی طریقہ کارنہیں اپنایا۔ 

اسی طرح پاکستان پوسٹ اور سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کے پاس مشکوک ٹرانزیکشنز کیلئے کوئی میکانزم نہیں ہے جبکہ غیرملکی بنکوں اور نان بنکنگ فنانشل کمپنیوں کی جانب سےبھی محدودرپورٹنگ کی جاتی ہے۔ 

اگرچہ سٹیٹ بنک کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو قانونی طورپرمشکوک ٹرانزیکشنز کے اعدادوشمار جمع کرنے چاہیئے، جو ڈیٹا یہ جمع کرتا ہے وہ جامع یا مفصل نہیں ہے۔ 

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج آف پاکستان سےمتعلق رپورٹ میں کہاگیاہے، یہ خطرات کو سمجھتا ہے لیکن رسک پرمبنی نگرانی کےطریقہ کارکانفاذنہیں کیاگیا۔ اور اس نے انشورنس سیکٹرکی اینٹی منی لانڈرنگ اور کائونٹرفنانسنگ آف ٹیررازم کی کوئی نگرانی نہیں کی۔ 

دیگر شعبوں کی نگرانی نویورکسٹمر (کےوائےسی) اور کسٹمر ڈیوڈیلیجنس(سی ڈی ڈی) تک محدود ہے۔ ’’ عدم تعمل کرنے والوں کیلئےپابندیاں محدود ہیں۔ اس بات کے کم ہی شواہد ہیں کہ ایس ای سی پی کی سُپروائزری ایکٹویٹی سے اے ایم ایل یا سی ایف ٹی کارویہ بہترکیاہو۔ مختلف مالی اداروں کی نگرانی تقسیم کردی گئی ہے۔ 

مثال کےطورپر بنکوں، ڈویلپمنٹ فنانس انسٹیٹیوشنز(ڈی ایف آئی)، مائیکروفنانس بینکس اورایکسچینج کمپنیاں کااےایم ایل اور سی ایف ٹی کیلئےطےشدہ سپروائزرہے۔ ایس ای سی پی نان بنکنگ فنانشل انسٹیٹیوشنز بشمول سیکیورٹی بروکرز، نان بینک فنانس کمپنیاں، انشورنس کمپنیاں کی نگرانی کرتاہے۔ تاہم ڈیزگنیٹڈ نان فنانشل بزنسزاینڈ پروفیشنزکیلئے کوئی نگران نہیں ہے، نہ ہی پاکستان پوسٹ اور سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کیلئے کوئی ایسا نگران ہے۔ منی لانڈرنگ کے مقابلے میں ٹیرر فنانس کے لیےصورتحال زیادہ خراب ہے جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے۔ 

ٹیرر فنڈنگ کیلئے، مجاز اتھارٹیز کو خطرے کی ملی جلی سمجھ ہے۔ ٹیرر فنڈنگ کی قومی تحقیقات ایجنسی (ایف آئی اے) کو ٹیرر فنڈنگ کے خطرے کی کم سمجھ ہے جبکہ صوبائی پولیس کا ٹیررفنڈنگ کی تحقیقات کرنے والا ادارہ(کائونٹرٹیررازم ڈپارٹمنٹس، سی ٹی ڈی)کےپاس اپنےصوبوں میں ان خطرات کی بہترسمجھ بوجھ ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے،’’خاص طورپر پنجاب سی ٹی ڈی کو پنجاب میں ٹیرر فنڈنگ کی بہتر سمجھ ہے۔‘‘ 

زیر نظر دورانیے میں پاکستان نےٹیررفنڈنگ کے228مقدمات درج کیے اور 58 افراد (پاکستان نےکسی قانونی شخص کی ٹیررفنڈنگ کی تحقیقات نہیں کیں)کوسزاہوئی، یہ پاکستان کے مجموعی طورپر پاکستان میں ٹیررفنڈنگ کےخطرےسےمطابقت نہیں رکھتا۔ تحقیقات کی اتنی زیادہ تعداداورتمام تر سزائیں صوبائی سطح پر حاصل کی گئیں ان میں پنجاب کی49سزائیں بھی شامل ہیں۔ 

پاکستان کے دیگر صوبوں میں ٹیررفنڈنگ پرہونے والی سزائیں صوبے کے ٹیررفنڈنگ رسک سے مطابقت نہیں رکھتی۔ 

رپورٹ میں کہاگیاہے،’’پنجاب سی ٹی ڈی سے باہر ٹیرر فنڈنگ کی محدود کارروائیوں کو قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی صلاحیت اور ترجیحات نے سہارادیاہے۔ دستیاب معلومات کےکی بنیاد پر تجزیہ کرنےوالی ٹیم نے ٹیرر فنڈنگ کی پابندیوں صرف توجہ ہٹانےوالی بات ہے۔‘‘ پاکستان ٹیرر فنڈنگ پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 126/1989/1988 اور 1373 کےمطابق دومختلف طریقوں سےعائد کررہاہے۔ 

پاکستان اقوام متحدہ کی قرارداد 1267کو سٹیشوری ریگولیٹری آرڈرجاری کرکےداخلی طورپر نافذ کرتاہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے،’’اقوام متحدہ کی قرارداد 1267کی نفاذ میں حالیہ بہتری کےباوجود ایسےکئی واقعات ہیں جہاں اقوام متحدہ کی لسٹنگ میں تبدیلی کےکئی روز بعدایس آراوزجاری کیےگئے۔‘‘ 

یہ بھی غیرواضح ہے کہ کیا تمام فنانشل اور نان فنانشل اداروں، قانونی اور قدرتی افرادکوفریزنگ ایکشنز لینے کی ضرورت ہے، بنیکوں، ڈی ایف آئیز، ایم ایف بیز، ای سیز اور ایس ای سی پی کےتحت کام کرنےوالےافرادکیلئے اضافی ضروریات ہیں۔ پاکستان یواین ایس سی آر 1373 کو اے ٹی اے کے مطابق مختلف افراد اور اداروں پرپابندیاں عائد کرکےنافذ کررہاہے، اسے صوبائی حکومت کے محکمہ داخلہ نے تیار کیاہے۔ 

’’ اکتوبر2018کو جائے وقوع کے دورے کے موقع پرپاکستان نے 66تنظیموں اور تقریباً7600افراد پر پابندی عائد کی لیکن نیکٹا کی ویب سائٹ پر جاری ہونےوالی فہرست میں بہت محدود معلومات شامل ہیں۔‘‘ تاہم ایک سرکاری اہلکارنےاس تاثرسےانکار کیاکہ پاکستان منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ سے نمٹنےکیلئےزیادہ کام نہیں کررہاہے۔ 

نام ظاہرنہ کرنےکی شرط پر اہلکارنےبتایاکہ تمام ممکنہ اقدامات کیے گئے ہیں اوراس ناسور سے نمٹنےکیلئےمزیدکام کیاجارہاہے۔انھوں نے کہاکہ اس ناپاک مہم کے پیچھےبھارت ہے اور بین الااقوامی فورمزپرپاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کاکوئی موقع ضائی نہیں کرتا۔ 

اہلکار نے مزید بتایا کہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری کاوشوں کی گواہ ہے اور ہماری سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ انھوں نے مزید بتایاکہ تمام ادارے مکمل ہم آہنگی سے کام کررہے ہیں تاکہ دہشتگرد تنظیموں کی فنڈز کی سپلائی روکی جاسکے،ایساپہلےکبھی نہیں کیاگیا۔ 

منی لانڈرنگ سے متعلق انھوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کی اس معاملے پر زیرو ٹالیرنس پالیسی ہے اور کرپشن کے خلاف ان کی جنگ اس کی زندہ مثال ہے۔

تازہ ترین