• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کنواری کالونی‘ یہ کے ڈی اے اسکیم 33میں کچی آبادی کے طور پر لیز کی گئی

قادر خان

کنواری کالونی ، کراچی کے دور افتادہ علاقے منگھو پیر کے قریب 1980ء سے قائم ہے۔یہ کالونی ، یونین کونسل نوسا ئٹ ٹاؤن ضلع غربی میں واقع ہے۔کٹی پہاڑی سے ایک کلومیٹر کی مسافت پر کے ڈی اے اسکیم 33کے سیکٹر6 میں آباد علاقے میں پاکستان کا سب سے بڑا ماربل فیکٹریوں کا صنعتی زون بھی واقع ہے، جہاں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں سنگ مرمر کی مصنوعات کی تیاریوں میں چوبیس گھنٹے لاکھوں مزدورں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

کنواری کالونی کے نام کا وجہ تسمیہ واٹر بورڈ کی جانب سے قائم ایک آفس ہے، جسے انکوئری آفس کے نام سے پکارا جاتاتھا۔کنواری کالونی دراصل میٹرول دو کہلائی جاتی ہے جو کے ڈی اے اسکیم 33میں کچی آبادی کے طور پر لیز کی گئی ہے۔

پانی کی فروانی اور بلوچستان کے نزدیک ہونے کی وجہ سے منگھو پیر روڈ پر ماربل انڈسٹری زون قائم کیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع زیادہ ہونے کی وجہ سے بیرون کراچی سے آنے والوں نے اس ایریا کے نزدیک اپنی رہائش اختیار کرلی اور قصبہ کالونی کے منصوبے کے ساتھ ہی نیو میانوالی کالونی ، اسلامیہ کالونی میں نیازی برادری اور پختون برداری نے آباد ہونا شروع کردیا ۔

یہ علاقے ولیکا سیمنٹ فیکٹری کے زیر استعمال تھے، جہاں سیمنٹ کی تیاری کےلئے پہاڑی کو کاٹ کر پتھر نکالے جاتے تھے ۔ مقامی ٹھیکدار جیسے جیسے پہاڑی کو کاٹتے جاتے وہاں حکومت کی اجازت کے بغیر پلاٹوں کی شکل میں انتہائی کم قیمت پر بیرون کراچی سے آنے والے محنت کشوں کو وہ زمین فروخت کردی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اور ولیکا سیمنٹ فیکٹری کو آبادی کے بڑھ جانے کے سبب اپنا کام روکنا پڑا، کیونکہ انھیں پتھر سپلائی کرنے کےلئے پہاڑ میں بارود سے دہماکے کرنے پڑتے تھے، جس سے آس پاس کی آبادیوں اور انسانی جانوں کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

قصبہ کالونی کراچی کے ادارے کے ڈی اے سے منظور شدہ پراجیکٹ تھا جو سعودی حکومت کی جانب سے 1965ء میں کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے منظور کیا گیا تھا ،یہاں پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں نے آباد کاری کی۔قصبہ کالونی میں بتدریج مختلف زبان بولنے والوں نے ارد گرد کی خالی جگہوں پر آباد کاری شروع کردی اور قصبہ کالونی کی گرد و نواح کی پہاڑیوں میں ایک نئے پہاڑی آبادی کا اضافہ ہوا جیسے پیر آباد ، مسلم آباد اور غریب نواز کالونی کے نام سے آباد کیا گیا ۔

15اکتوبر2009ء میں گورنر سندھ عشرت العباد کے ہمراہ ناظم کراچی مصطفی کمال نے نارتھ ناظم آباد اور اورنگی ٹاؤن کو آپس میں ملانے والے منصوبے جیسے عرف عام میں کٹی پہاڑی کہا جاتا ہے ، افتتاح کیا۔یہ منصوبہ قصبہ کالونی میں آبادی کاری کے وقت سے موجود تھا لیکن پہاڑی میں سرنگ بنانے کے منصوبے پر حکومت کی جانب سے فنڈز مہیا نہیں کئے جاتے تھے ۔ 

قصبہ کالونی کی آبادی کاری کے وقت پہاڑی کو کاٹنے کا منصوبہ زد عام تھا، اس لئے ارزاں رہائش کے خواہاں خاندانوں نے بہتر مستقبل کے لئے یہاں آباد ہوگئے، لیکن پہاڑ میں سرنگ نہ نکلنے کی وجہ کی بنا ء پر نصرت بھٹو کالونی کی پہاڑی کو کاٹ کر نارتھ ناظم آباد سے منگھوپیر کو ملا دیا گیا۔

اسی روڈ پر ماربل زون ہونے کے سبب اور شہری علاقے میں پہاڑی کٹ جانے کے بعد تیزی کے ساتھ علاقے آباد ہونا شروع ہوئے اور کے ڈی اے کی جانب سے میٹرول دوکی بنیاد پڑی ، جنوبی وزیرستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے بڑی تیزی کے ساتھ سستے پلاٹوں پر اپنی آبادیاں قائم کرلیں ۔ کراچی میں ترقیاتی کاموں کےلئے ڈمپر ، لوڈر ، کرین کی ضروریات کو محسود قبائل کے کاروباری افراد نے پورا کرنا شروع کیا۔ 

روزگار کے وافر مقدار میں ذرائع میسر آنے کے سبب وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں نے سہراب گوٹھ کے ساتھ کنواری کالونی کا رخ کیا کیونکہ یہاں ماربل فیکٹریوں کو بھی اپنی ضروریات کیلئے بھاری مشینری کی ضرورت پڑتی تھی اس وجہ سے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹرز نے اربوں روپیہ کی سرمایہ کاری کرکے کراچی کے ترقیاتی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا اور کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ میٹرول کی یہ آبادی اعوان کالونی اور پھر مسیحی برادری کی آبادیوں میں بھی آباد ہونا شروع ہوئی اور کنواری کالونی کے اطراف میں بڑی تعداد میں غیر مسلم آباد ہوئے۔تاہم آج تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ، جو کسی ناخوش گوار واقعے کی بنیاد بنتا۔

ایک لاکھ سے زائد نفوس کی اس آبادی میں صرف ایک سرکاری اسکول ، جو مسجد صفا کے نام سے مدرسہ اسکول اسکیم کے تحت قائم ہوا تھا ، لیکن حکومت کی عدم توجہ کے سبب مسجد صفا سے منسلک یہ اسکول حوادث زمانہ کی نظر ہوگیا اور کنواری کالونی کے بچوں کو اسکول کی واحد سہولت بھی نہیں رہی۔

قبائلی روایات کے مطابق مساجد کے ساتھ قائم مدارس میں دینی تعلیم مہیا کی جاتی، تاہم یہ بھی محدود حد تک تھی،جس میں ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم اور حفظ قرآن تک تھی ۔سرکاری سہولت کے طور پر یہاں کوئی پارک ، میدان ، کیمونٹی سینٹر ، ڈسپنسری ، اسپتال ، اسکول ، یا کوئی دوسری سہولت میسر نہیں،جس سے ان آبادیوں میں احساس محرومی و معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوا۔

کراچی کے دور افتادہ علاقہ ہونے کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ یہاں کم مرکوز تھی اور منگھو پیر پولیس اسٹیشن کی حدود نہایت وسیع اور نفری کم تھی اس بناء پر قانون کی عملداری کم ہونے لگی ، بعد ازاں منگھو پیر پولیس اسٹیشن کی حدود سے ان علاقوں کو پیر ٓاباد پولیس اسٹیشن میں شامل کردیا گیا ، لیکن اس تھانے کی حدود کاآخری علاقہ ہونے کے سبب اور کم نفری کے باعث مختلف انواع کے افراد کو یہاں پنپنے کا موقع مل گیا۔

تازہ ترین