• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ایک بزرگ کی خاطر میں اس بھرم کا بھانڈہ بھی پھوڑ دیتا ہوں جسے کالم نگار بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں بزرگوں کو کبھی ناراض نہیں کرتا، نوجوانوں کی خیر ہے۔ بزرگ کا کیا بھروسہ کس لمحے زندگی سے روٹھ کر خالق حقیقی کے پاس چلے جائیں اور ساتھ ہی دل میں رنجیدگی اور ناراضگی بھی لے جائیں۔ نوجوانوں کی خیر ہے ان کے پاس خاصا وقت ہوتا ہے۔ ناراض ہوں تو منالیں گے بزرگ بعض اوقات منانے کا وقت ہی نہیں دیتے۔
اس لئے میں ان کے بارے میں محتاط رہتا ہوں۔ کالم لکھنے بیٹھا تو فون کی گھنٹی بجی۔ السلام علیکم کہا تو جواب ملا میں91سالہ بوڑھا ہوں، میرا بیٹا ڈاکٹر ہے اسے دس ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ آپ محکمہ صحت میں کسی سے سفارش کردیں۔ میں نے خلوص نیت سے عرض کی کہ میں محکمہ صحت میں کسی کو نہیں جانتا، کیا آپ نے کسی اور سے بات کی؟ جواب ملا کہ وزیر اعلیٰ کے قریب بلکہ ”عنقریب“ ایک کالم نگار سے داد رسی چاہی لیکن وہ ٹال گئے۔ آپ بھی کالم نگار ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے بات کریں میں نے پھر خلوص نیت سے وضاحت کی کہ مجھے وزیر اعلیٰ تک رسائی حاصل نہیں، اگر آپ کے حکم کی تعمیل میں ان کو فون بھی کروں تو جواب آتے آتے حکومتیں بدل جائیں گی اور ہوسکتا ہے کہ حکومت بدلنے کے باوجود جواب نہ آئے۔ وہ بزرگ ناراض ہوگئے کیونکہ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ مضبوط میڈیا کے دور میں ایک کالم نگار فون کرے اور وزیر اعلیٰ اس کی بات نہ سنے۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں تھا کہ میڈیا بے شک مضبوط ہے لیکن حکمران مضبوط تر بلکہ مضبوط ترین ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بھوک و افلاس اور بے روزگاری کے سبب خوکشیاں بڑھ رہی ہیں لیکن ان بھوکوں کے ووٹوں سے حکمران بننے والوں میں بڑے سے بڑے محلات بنانے کا مقابلہ جاری ہے۔ کراچی میں ہر روز معصوم لوگ مارے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کو اصرار ہے کہ وہاں حکومت موجود ہے اور خیرسلاّ ہے۔
میں ا س بزرگ کی بات سن کر پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ بے انصافی کے اس سمندر میں انصاف کے جزیرے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں ہر کوئی بے حال، پریشان اور محروم ہے سوائے مراعات یافتہ طبقے کے۔ان حالات میں میری بیچارگی کسے کسے سہارا دے گی۔ فوراً خیال آیا اور میں نے ان سے عرض کیا کہ بیٹے سے کہیں صوبائی محتسب کے دفتر میں درخواست دے، انشاء اللہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ وہ بزرگ سمجھے کہ میں ا نہیں ٹال رہا ہوں ورنہ میں فون کروں اور وزیر اعلیٰ فوراً موجود نہ ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ انہوں نے رنجیدہ خاطر ہو کر فون بند کردیا۔ مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ میں کسی بزرگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ فون پہ سی ایل آئی کی سہولت میسر نہیں ورنہ ان کا نمبر دیکھ کر انہیں منانے اور سمجھانے کی کوشش کرتا۔
اسی ادھیڑ بن میں مبتلا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون آن کیا تو دوسری طرف سے ایک جوان آواز سنائی دی۔ میں نے سوچا جوان کی خیر ہے۔وہ صاحب اس قدر مظلوم تھے کہ مجھے یوں لگا جیسے وہ بات نہیں کررہے بلکہ آنسو پی پی کر اپنا دکھڑا سنارہے ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ نوجوان اٹک کے علاقے سے تعلق رکھتا ہے، ڈبل یا ٹرپل ایم اے ہے، علامہ اقبال یونیورسٹی سے بی ایڈ کرچکا ہے اور آج کل ایک ہوٹل میں برتن مانجھ کر روٹی کمارہا ہے۔ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب یہ کیسا ملک ہے کہ جعلی ڈگریوں والے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں معمولی تعلیم یافتہ حکمران بن جاتے ہیں اور ٹرپل یعنی تین ایم اے کرنے والے بھوک کی آگ بجھانے کے لئے ہوٹلوں میں برتن دھونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں صرف اسکول ٹیچر بننا چاہتا ہوں لیکن پنجاب کی حکومت نے سائنس مضامین کے علاوہ ٹیچروں کی بھرتی بند کررکھی ہے۔
دوسری طرف یہ حال ہے کہ ہزاروں اسکول استادوں سے محروم ہیں وہاں نہ سائنس کے ٹیچر ہیں اور نہ ہی آرٹس کے۔ آخر ہمارے پڑھے لکھے اور ہم سے کم پڑھے لکھے حکمران کیوں محسوس نہیں کرتے کہ آرٹس مضامین بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے سائنس مضامین، اگر مجھے پہلے علم ہوتا تو میں ایک ایم ا ے کسی سائنس مضمون میں بھی کرلیتا۔ اب میں کئی برسوں سے آرٹس مضامین میں بھرتی کھلنے کا منتظر ہوں یہ الگ بات کہ بھرتی کھلے گی تو ووٹ لینے کے لئے اسمبلیوں کے امیدواران سفارشی لوگوں کو بھرتی کروانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوں گے۔ نوجوان کو میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری صدا کوئی نہیں سنتا، ہماری فریاد صدا بصحرا سے بھی کم حیثیت رکھتی ہے لیکن وہ اپنی ضد پہ قائم رہا کہ آپ آواز اٹھائیں تو سہی۔ میں ہار مان گیا اور وعدہ بھی پورا کردیا لیکن مجھے یقین ہے کہ میری آواز اقتدار کے محلات سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئے گی اور یوں وہ بھرم بھی ٹوٹ جائے گا جسے ہم نے بڑی محنت سے قلم کے ذریعے قائم کررکھا ہے۔ مجھے اپنی فکر نہیں کہ میں اس حسن سلوک کا عادی ہوں لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ لوگوں کا حسن ظن ریزہ ریزہ ہوجائے گا کیونکہ لوگ اس حسن ظن میں مبتلا ہیں کہ حکمران میڈیا کی بات سنتے ہی نہیں بلکہ مانتے بھی ہیں۔
اس کا اندازہ مجھے ان خطوط سے ہوتا ہے جو مجھے موصول ہوتے ہیں یا پھر سرراہے لوگوں سے ملاقاتوں میں ہوتا ہے۔ میں سرگودھا کے ایک قاری کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے مجھے اپنا پرابلم لکھنے کے بعد لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بلاؤ اور اسے کہو کہ میرا مسئلہ جائز ہے اسے حل کرو۔ یہ خط پڑھتے ہوئے میں خط لکھنے والے کی داد دے رہا تھا لیکن آخری سطور پر پہنچا تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ آخر میں لکھا تھا آپ کا مخلص محمد حسین ریٹائرڈ حوالدار پاک فوج۔ آپ پوچھیں گے تم مسکرائے کیوں…؟دراصل میں اپنے فوجی بھائی کی سادگی اور اپنی بے بسی پر مسکرایا۔ یہ سادگی کی انتہا ہے کہ لوگ لفظوں، القاب اور نعروں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ یہ بھی ان کی سادگی ہے کہ وہ ہمیں نہایت بااثر اور میڈیا سے اٹھنے والی آواز کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں۔ اپنی پوری چیخ و پکار کے باوجود کیا میڈیا کرپشن گھٹانے میں کامیاب ہوا ہے؟ کیا لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک سے واپس لانے میں کامیاب ہوا ہے؟کیا حکمرانوں کی عیاشیاں، شان و شوکت، فضول خرچیاں اور سرکاری خزانے کا زیاں روکنے میں کامیاب ہوا ہے؟ کیا لوٹا کریسی کی روایت توڑنے میں کامیاب ہوا ہے وغیرہ وغیرہ…!!میڈیا کا کام آئینہ دکھانا اور لوگوں کی سیاسی تربیت کرنا ہے، اگر لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود انہی لوگوں کو ووٹ دیں جو ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے یا جن پر جعل سازی اور کرپشن کے الزامات تھے تو میڈیا کیا کرے؟باقی دوستوں کے بارے میں کیوں کہوں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کئی بار اپنے کالموں میں گڈ گورننس کے حوالے سے اور اکثر اوقات عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے تجاویز دیں جو اقتدار کی ردی کی ٹوکریوں کی نذر ہوگئیں۔ ان حالات میں بھرم قائم رکھنے اور حسن ظن کو دائم رکھنے کا کیا فائدہ ؟
آپ انفرادی مسائل کی بات کرتے ہیں میرا تجربہ قومی اور اجتماعی مسائل کے بارے میں بھی مایوس کن ہے۔ کتنی ہی بار بظاہر ناقابل عمل اور ہوائی منصوبوں سے روکنا چاہا لیکن حکمران کب کسی کی سنتے ہیں ان کا رویہ اس دریا کی مانند ہوتا ہے جسے اپنی اور صرف اپنی موج کی طغیانی سے غرض ہے کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔
تازہ ترین