• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں ایک تاریخ ساز جذباتی خطاب نے دنیا بھر کے میڈیا میں ہلچل مچا دی، کروڑوں لوگوں نے ان کا خطاب سنتے ہوئے نہ صرف انہیں سراہا بلکہ یہ تبصرے بھی آئے کہ عمران خان اقوام متحدہ کے فورم پر کشمیر کا مقدمہ جیت چکا ہے۔ کشمیر تقریر میں جیتنا اور عملی طور پر ظلم کی انتہا کو روکنا دو مختلف باتیں ہیں۔ لوگوں کی خوشی اپنی جگہ مگر معاشرے کے للّو پنجو جیسے کردار خوش کے ساتھ مغموم بھی ہیں، ان کی پریشانی میں دلیل بھی ہے اور وہ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اکثریت کے دلوں میں اٹھنے والے سوالات کو بھی ایک مدلل انداز میں ڈسکس کر رہے ہیں۔ وہ تو اس کا آسان حل بھی سامنے لے آئے ہیں۔ آپ بھی ان کی گفتگو سنئے۔

للّو، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کا خطاب نہ صرف کشمیریوں کے دلوں کی آواز تھی بلکہ عالم اسلام کی نمائندگی کا بھی صحیح حق ادا کیا ہے۔ انہوں نے مغرب کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نائن الیون کے بعد ہر دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑا گیا۔ یہ اسلامو فوبیا ہے، ہندوازم کے نام پر دہشت جاری ہے، مودی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی رکن ہے۔ کشمیر میں بھارت کی 9لاکھ فوج ظلم و بربریت کر رہی ہے مگر اقوام عالم خاموش تماشائی بنا ہوئیں ہیں، اگر یہودیوں یا عیسائیوں پر وہ ظلم جو نہتے کشمیریوں پر کیا جا رہا ہے، ہوتا تو اقوام عالم خاموش رہتیں؟ قطعاً نہیں، میں کہتا ہوں مقبوضہ کشمیر سے فوری طور پر کرفیو کو ہٹایا جائے، اگر حالات مزید خراب ہوئے تو بھارت پاکستان کو جنگ کی طرف دھکیل دے گا اور جب دو نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان جنگ ہوگی تو اس کے نتائج پورے عالم کو بھگتنا پڑیں گے۔ اس لئے اقوام متحدہ فوری نوٹس لے اور اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کروائے۔

پنجو، بھائی میں تو تقریر کی حد تک اتفاق کرتا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بڑے خوش ہیں کہ ان کے حق کے لئے آواز اٹھائی گئی اور اسی حوصلہ کی بنیاد پر وہ کرفیو توڑ کر احتجاج کے لئے باہر بھی نکلے۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبران میں 57اسلامی ملک ہیں اور یہ سعادت وزیراعظم پاکستان کو نصیب ہوئی کہ انہوں نے ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے حوالے سے بھی بڑا واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا۔ مسلم سربراہان ان کی تقریر پر آبدیدہ ہوگئے۔ 45منٹ کے خطاب کے دوران کئی بار ہال تالیوں سے بھی گونجا لیکن سوائے ترکی کے صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد کسی مسلمان ملک نے کشمیر پر بات نہیں کی۔

للّو، دیکھو ہر ملک کی اپنی ضرورتیں اور مجبوریاں ہوتی ہیں، دوسری طرف یہ بھی دیکھو کہ ترکی اور ملائیشیا نے بڑے کھل کر کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو متعدد بار دہرایا ہے۔

پنجو، ٹرمپ کی بات کو چھوڑو وہ دنیا کا سب سے ناقابل اعتبار صدر ہے۔ ایک طرف ثالثی کی پیشکش کرتا ہے تو دوسری طرف ہیوسٹن میں مودی کے جلسے میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یہ نعرے لگا رہا ہے کہ ہم مل کر مسلمان دہشت گردوں کو ختم کریں گے۔ ایک طرف پاکستان سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ افغان مسئلہ کے حل کے لئے طالبان سے مذاکرات کرائے پھر اچانک یہ مذاکرات ختم کرکے وہاں بربریت شروع کر دیتا ہے، البتہ اب پاکستان اپنی شرائط پر افغان طالبان سے امریکی مذاکرات کرانے کی جرأت کرے کہ کشمیر میں فوری استصواب رائے کرایا جائے تو شاید کوئی نتیجہ نکل سکے ورنہ امریکہ پر قطعی انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ اب دیکھو نا! یہ جنگ ہماری ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ہم دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت ظلم کر رہا ہے، اقوام متحدہ ہمارا یہ مسئلہ حل کرائے۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے کوئی بھی لڑے گا اور نہ ہی کشمیر کو تحفتاً ہماری جھولی میں ڈالے گا۔ آج دو ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے کہ کشمیر میں کرفیو برقرار ہے، نہتے اور مظلوم کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ تقریر کے اثرات یہ ہوئے ہیں کہ کشمیریوں پر مزید مصائب کے پہاڑ توڑ ڈالے گئے ہیں اور ہم وزیراعظم کی تقریر کے نشے سے نہیں نکل رہے، اگر تو واقعتاً کشمیریوں کو ان کے حقوق دلوانا چاہتے ہیں تو ہمیں عملی قدم اٹھانا ہوگا اور یہ سوچنا ہوگا کہ کوئی ہماری حمایت کو نہیں آئے گا، ہمیں خود ہی اپنی جنگ لڑنا ہوگی، جب ہم خودارادیت کے حق کو حاصل کرنے کے لئے خودارادیت کو اپنائیں گے تو پھر دنیا بھی ہماری قدر کرے گی، اگر تو یہ خام خیالی ہے کہ کوئی ہمیں طشتری میں رکھ کر کشمیر دیدے گا تو 70سالوں کے انتظار کے بعد 70سو سال بعد بھی انتظار کا بورڈ ہی لگا رہے گا، البتہ ہم اس وقت ایک بڑا اہم کام کر سکتے ہیں وہ یہ کہ خطے میں روس، ایران، چین، ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر ایک نیا بلاک بنائیں اور ایک دوسرے کے معاشی، سلامتی اور جغرافیائی مفادات کے تحفظ کے لئے معاہدے کریں اور پھر مقامی کرنسی کے ساتھ تجارت کو نہ صرف فروغ دیں بلکہ دنیا کو مجبور کر دیں کہ وہ ہماری کرنسی کے تحت تجارت کرے۔ یہی ایک طریقہ ہے جو ڈالر کی سپرمیسی کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کو قومی مسائل اور معیشت پر توجہ دینے کے لئے بے نتیجہ نیب کیسز سے آگے بڑھنا ہوگا اور ملک کی صنعت کے پہیے کو چلانے کے لئے صنعتکاروں اور تاجروں کو پُرامن اور سازگار ماحول دے کر عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلانا ہوگی، مگر کیا کریں ہم تو ڈینگی پہ قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور بچوں کے ایک قاتل کو پکڑنے کے لئے 20کروڑ خرچ کر دیتے ہیں۔

تازہ ترین