• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کو ڈھائی ماہ کا عرصہ ہو چلا ہے، تشویش کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا کی خاموشی اور خاص طور پر مسلم ممالک کی خاموشی کشمیر میں ایک انسانی المیے کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے لیکن اس سے بھی بڑی تشویش کی بات بھارت کا بدلتا ہوا سیاسی اور سماجی بیانیہ ہے جس سے نہ صرف سیکولر ازم کا خاتمہ دکھائی دے رہا ہے بلکہ یہ پورا خطہ تہذیبی اقدار سے بھی محروم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ نو آبادیاتی طاقتوں کے آنے سے پہلے متحدہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سورت کے شہر میں دو فسادات ضرور ہوئے تھے جن کی وجہ معاشی رقابت تھی مگر ان فسادات نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا لیکن اس وقت تک گنگا جمنی مشترکہ کلچر بہت مضبوط ہو چکا تھا اور یوں ان فسادات پر جلد ہی قابو پا لیا گیا۔ دراصل بھارت میں گنگا جمنا تہذیب کو سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب 1813ء میں برطانوی ہائوس آف کامنز نے عیسائی مشنری کو ہندوستان میں تبلیغ کرنے کی اجازت دی، جس سے ہندو اور مسلمانوں میں بھی مذہبی احساسات ابھرے۔ اب مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں ہندو مذہب کے ماتحت ایک قوم بنانا سیاسی طور پر لازم ہوگیا تھا۔ ساورکر نے ’’ہندوتوا‘‘ کا نظریہ پیش کیا اور بھارتی مذاہب بدھ، جین اور سکھ ازن کو ہندو مذاہب قرار دیا کیونکہ یہ اس سرزمین کی پیداوار تھے مگر اسلام اور عیسائیت کو غیر بھارتی قرار دے کر ان کے خلاف مقابلے کا اعلان کیا۔ ساورکر دراصل ایک انڈین نیشنلسٹ تھا جس نے 1857ء میں ایک کتاب ’’The First War of Indian Independence‘‘ لکھی۔ انگریزوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی، ساورکر کو کالے پانی کی سزا دی گئی۔ وہاں سے واپسی کے بعد ساورکر ہندو انتہاپسند بن کر ابھرا۔ 1915ء سے 1920ء کے درمیان ہندو مہاسبھا، آریہ سماج اور آر ایس ایس جو ہندو سبھا کی فوجی شاخیں تھیں، میں اتحاد کی کوششیں تیز ہو گئیں لیکن اس گروہ نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں کوئی حصہ نہیں لیا جبکہ کانگریس نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی، جاگیر داری کا خاتمہ کیا، پسے ہوئے لوگوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا اور یوں سیکولرازم کی جڑیں سماج میں مضبوط کیں۔

آج اکیسویں صدی میں اس خطے میں امن پسندوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ یورپی تاریخ میں بھی ایسے بہت سے ادوار آتے ہیں جب سماج میں بہت خونریزی ہوئی، جس میں 1618ء سے 1648ء تک تیس سالہ مذہبی جنگ اہم ہے، اس میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے لیکن اس کے باوجود یورپ میں جمہوری ادارے طاقتور ہوئے اور سیکولرازم کی جڑیں مضبوط ہوئیں اور عام آدمی کے لیے ریاست اور عوام کے درمیان جتنا مضبوط رشتہ آج یورپ میں ہے ایسا کسی اور خطے میں دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی اصل وجہ وہ اصلاحی تحریکیں تھیں جس میں دانشوروں، سائنسدانوں، شاعروں اور ادیبوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج ایشیا کے اس خطے کو دوبارہ گنگا جمنی اور سیکولر تہذیب پر لانے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ اس تاریخی مقام پر سول سوسائٹی اور دانشوروں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ انہیں ببانگ دہل اس فسطائی تحریک کے خلاف بند باندھنا ہوگا ورنہ یہ پورا خطہ نہ صرف اقتصادی طور پر بلکہ تہذیبی و تمدنی طور پر بھی گھپ اندھیروں میں چلا جائے گا۔ اس موقع پر عمران خان نے دورۂ امریکہ میں اقوام متحدہ اور مختلف جگہ بات چیت کرتے ہوئے کچھ مثبت باتیں بھی کی ہیں مثلاً انہوں نے کشمیر کے عوام کے لیے حق خودارادیت کی بھی حمایت کا اعلان کیا ہے، ان کا یہ بیان بہت اہم ہے کہ کشمیر میں پاکستان کی طرف سے اگر کچھ حلقے اسلحے کے زور پر لڑیں گے تو یہ کشمیریوں کے کاز کے ساتھ غداری ہوگی۔ وہ اپنی تقریر اور اپنے انٹرویوز میں کشمیر کے لوگوں کی حالتِ زار کے بارے میں عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے میں کامیاب رہے۔ آج ایک طرف 2ماہ سے تقریباً 80لاکھ کشمیریوں کو آٹھ لاکھ فوجیوں نے پابند سلاسل کیا ہوا ہے تو دوسری طرف بھارت نے اپنی تجارتی منڈی اور سرمایہ کاری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کی حق تلفی کرنے کا پورا ارادہ کر لیا ہے۔

معروف تاریخ دان ٹوئن بی نے کہا تھا کہ ہر معاشرے کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب تک وہ معاشرہ ان کا جواب دیتا رہتا ہے وہ زندہ رہتا ہے اور جب اس کی توانائی ختم ہو جاتی ہے اور وہ موثر جواب دینے کے قابل نہیں رہتا ہے، ایسے وہ معاشرہ مردہ ہو جاتا ہے۔ آج بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مذہبی عقائد کا جارحانہ اندازمیں نفاذ چاہتی ہے، جس کے نتیجے میں پورے بھارت اور پاکستان میں نفرت کا یہ بیج ایک تناور درخت بن کر ابھرے گا جو بھارت و پاکستان کے ڈیڑھ ارب غریب عوام کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں جس طرح ایٹمی ہتھیاروں کی بات کی ہے یو این کے پلیٹ فارم پر اس طرح کی بات کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے تھی کیونکہ بہرحال جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ آج دنیا میں ٹرمپ اور مودی کی مثالیں دی جا رہی ہیں کہ ان دو بڑے جمہوری ممالک پر جنگجوئوں کا قبضہ ہوگیا ہے، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ کہیں پوری دنیا جنگی جنون کی لپیٹ میں نہ آ جائے۔ ارون دھتی رائے نے اس متعلق خوبصورت بات کی ہے کہ ٹرمپ ہر حال میں ایک فرد ہے اور وہ ایک فرد کے طور پر ابھرا ہے لیکن مودی ایک مکمل ادارہ ہے۔ جس نے پورے بھارتی معاشرے کو اپنے ہندوتوا اور فسطائیت کے نظریے کی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب بھارتی معاشرے کے لیے اس چنگل سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بھارت جسے آج ترقی کرنا چاہئے تھی، لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہئے تھے ان حالات میں وہ اپنے لوگوں کی فلاح کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا پائے گا۔ ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے کر آپ دو تہائی اکثریت تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن اکیسویں صدی میں بھارت کو امریکہ اور چین کے مقابلے میں اقتصادی طاقت نہیں بنا سکتے۔ ہاں البتہ آپ گائو ماتا اور رام مندر اور یوگا ڈے ضرور منا سکتے ہیں۔ آرٹیکل 370کے خاتمے کا بھی اعلان کر سکتے ہیں لیکن امریکہ اور چین کے ساتھ اقتصادی مقابلے پر نہیں آسکتے اور نہ ہی ہر سال بارہ ملین نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب نوجوان بیروزگار ہوں گے تو دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور جرائم کی شرح بڑھے گی۔ اس سے اس بھارت کی تعمیر تو نہیں ہو پائے گی جس کا خواب گاندھی اور نہرو نے دیکھا تھا، البتہ مودی کے فاشسٹ بھارت کی تعمیر ضرور ہو پائے گی۔

تازہ ترین