• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب دوسرے صوبوں کی نسبت کثیر آبادی اور رائے عامہ کا رخ متعین کرنے کی صلاحیت کی بنا پر مرکزی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ لاہور پاکستان کا دل کہلاتا ہے۔ ساون کے غیر یقینی بادلوں میں سورج کی طرح کبھی واضح اور کبھی غائب ہوتے آئندہ انتخابات کے پس منظر میں پنجاب کا صوبائی شہر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔صدرآصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھی لاہور اور پنجاب میں اپنی پارٹی کی صحت درست کرنے کی خاطر اپنے نئے تعمیر شدہ قلعہ میں سرگرم عمل ہیں۔ صدر مملکت اس وقت بہت پراعتماد ہیں کیونکہ عددی اکثریت سے محروم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی پارٹی کی مخلوط حکومت کو پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کروائی ہے۔ ان کی ذات اور حکومت کے خلاف مسلسل ایک کے بعد دوسرا طوفان اٹھتا رہا لیکن وہ اور ان کی حکومت اپنی جگہ قائم رہے۔ انہوں نے اپنی توجہ حکومت بچانے کی خاطر جوڑ توڑ پر مرکوز رکھی اس کی خاطر کئی سیاسی قلابازیاں کھائیں اوراتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے۔ حکومت بچانے کی کوششوں میں جبکہ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی ارکان نے وہ لوٹ مار میں نادر شاہی لشکر کو بھی شرما کر رکھ دیا اور قوم کا ہزاروں ارب روپے ہڑپ کرکے ملک کو دیوالیہ پن کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔ بے روزگاری ،غربت اور مہنگائی نے لوگوں کو اپنے ہاتھوں اپنی جانیں تلف کردینے پر مجبور کردیا۔ بجلی اور گیس کی عدم دستیابی سے صنعتیں تباہ اور مزدوربے روزگارہوگئے،چولھے بجھ گئے اورملک اندھیروں میں ڈوب گیا۔ نارمل شہری ایک طرف، فاترالعقل بھی رخصتی کے لئے تیار اس حکومت کو آسمانی عذاب قرار دیتے ہیں اگرجناب زرداری کو زمینی حقیقتوں کا علم نہیں توہم بصد خلوص عرض کیے دیتے ہیں کہ پنجاب موجودہ پیپلز پارٹی کیلئے میانی صاحب کا قبرستان اور لاہور اس قبرستان میں واقع تیار قبر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ سیاست کے دائرے میں مسیحائی کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے اور اس گنجائش کے سبب بدترین حالات میں بھی قوموں کے سامنے امیدوں کے دیپ بجھنے نہیں پاتے لیکن اس کیلئے مسیحا صفت قیادت درکار ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے بدنصیب عوام کو رہبروں کے روپ میں رہزن اور مسیحاؤں کی شکل میں موت کے سوداگروں سے پالا ہے۔
بہت دن ہوئے کہ پنجاب پیپلز پارٹی کی قلمرو اور لاہور اس کی راجدھانی ہوا کرتا تھا، پھر کیا ہوا کہ یہاں بسنے والی غالب اکثریت اس سے منہ موڑگئی؟ آج ہمارا موضوع ملک اور بالخصوص پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ناگفتہ بہ حالت اور اس میں بہتری لانے کی غرض سے جناب زرداری کی کوشش کے رنگ لانے یا بے رنگ رہنے کے امکانات اور پارٹی کی بے مثال عدم مقبولیت کی وجوہات کا تعین ہے۔
پنجاب کے عوام نے ایوب خان کی کابینہ سے نکل کر ہندوستان کے ساتھ ہزار سالہ جنگ لڑنے، گھاس کھا کر گزارا کرلینے مگر ایٹم بم بنا کر اپنے اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو عوام کے سامنے سرنگوں کرنے کی صدا بلند کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ایسی پذیرائی بخشی کہ غیر تو غیر خود ان کو بھی اس کی توقع نہ تھی۔1977ء تک ان کا دور حکومت خوبیوں اور خامیوں کا مرقع رہا لیکن مالی معاملات میں ان کا کردار صاف و شفاف رہا کہ ان کے مخالفین نے کبھی ان پر اس حوالے سے انگلی نہیں اٹھائی، اگر انہیں اپنے کسی ساتھی کے بارے معمولی سی بدعنوانی کی بھنک پڑتی وہ بلا تامل اسے فارغ کردیا کرتے تھے۔1977ء کے مارشل لا سے لے کر1988ء تک جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے خلاف اپنی حمایت میں اضافے کے لئے بدعنوانی کے کلچر کی بنیادیں رکھیں۔ اس دور نے فقط سیاست نہیں بلکہ زندگی کے ہر دائرے کو متاثر کیا۔ صحافت سیاست کے بعد اس دور میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور نے قابل فخر معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ منافقت اور بے اصولی رائج الوقت سکے قرار پاگئے اور تو اور پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اس سے اپنا دامن نہ بچا سکی۔1988ء کے انتخابات کیلئے امیدواروں کے اپنے حلقہ سے جیت پانے کے امکانات کو پہلی ترجیح ٹھہراتے ہوئے ضیاء الحق کے ظالمانہ دور میں تھانوں قلعوں اور جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرکے پارٹی کو زندہ رکھنے والوں کو نظر انداز کرکے دور آمریت کو بلدیاتی انتخابات ،صدارتی ریفرنڈم، مجلس شوریٰ اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا حصہ بن کر تقویت پہنچانے والوں کو آگے لے آیا گیا اور مخلص اور آزمودہ ساتھیوں کو نظر انداز کرنے کے عمل کی ابتداء کردی۔ یہ روش پیپلز پارٹی کو اس مقام تک لے آئی کہ آج کوشش بسیار سے بھی ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر کی پارٹی کا کوئی فرد ڈھونڈے نہیں ملتا۔ وہ لوگ جو ضیاء الحق کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے اپنے اپنے مقام پر ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے رہے تھے وہ یا ان کی اولادیں آج ا قتدار کے مزے اڑارہے ہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر کے سیاسی فکر و فلسفہ اور ان کی ذات کے محاسن بیان کرتے نہیں تھکتے۔ پیپلز پارٹی کی صفوں پر قابض اور ٹی وی پر اس کی ترجمانی کرتے چہروں کو دیکھ کر مجھے امجد اسلام امجد کی ایک نظم رہ رہ کر اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
یہ جو لوگ ہیں مرے سامنے یہ کہاں کے ہیں!
ابھی کل تلک جو گلاب تھے مری راہ کے
جو گواہ تھے مرے صدق کے، جو مدار تھے میری چاہ کے
یہ تو ان کے لگتے ہیں سائے سے، یہ کہاں کے ہیں!
وہ جو گیت پھیلے تھے چار سو وہ کہاں گئے!
وہ جو پھول تھے میرے روبرو وہ کہاں گئے!
وہ جو شامیانے سے ہر طرف کسی موج ابر رواں کے تھے
وہ جو عکس تھے میری آنکھ میں ا نہیں کوئی چھین کے لے گیا
وہ جو نقش تھے سر لوح جاں، وہ کہاں گئے!
کوئی آشنا جو ملے کہیں تو پتہ چلے
وہ جو قاصد ان بہار تھے، وہ کہاں گئے!
وہ جو قلب و جاں کا قرار تھے وہ کہاں گئے!
یہ پتہ چلے
یہ جو ریزہ ریزہ ہیں آئینے یہ کہاں کے ہیں!
یہ جو لوگ ہیں مرے سامنے یہ کہاں کے ہیں!
جناب زرداری پنجاب میں پیپلز پارٹی کی عدم مقبولیت کے تیز رفتار عمل کو روکنے،پارٹی ورکرز اور عہدیداران کومتحرک اور فعال بنانے اور جوڑ توڑ کے ذریعے انتخابی فضا اپنے حق میں کرنے کا عزم لئے بلاول کارڈ کے ساتھ لاہور میں فروکش ہیں۔ یہ قدم انہوں نے اس وقت اٹھایا ہے جب محاورةً چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ انہوں نے اپنے اقتدار کا زیادہ تر عرصہ بیرونی دوروں، قصر صدارت میں یا پھر کراچی کے ساحلوں پر واقع بلاول ہاؤس میں گزار دیا۔ وہ اب لاہور تشریف لائے ہیں تو انکی خدمت میں عرض کردیں کہ عوام کی یہ پارٹی اب سیاسی وارداتیوں کی جو لانگاہ بن کر رہ چکی ہے ان کے دربان پیپلز پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں یعنی اصل ورکرز کو ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیں گے۔ یہاں ہر کوئی جہانگیر بدر ہے جس نے اصل ورکرز کاراستہ روک کر نہ جانے کس سیارے سے آئے لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کررکھا ہے اور یہی سوغاتیں یہ لوگ آپ کی خدمت میں پیش کریں گے اور اصل پیپلز پارٹی آپ تک رسائی کے لئے ترستی رہے گی۔ ملک حفیظ، سیٹھ بشیر، شاہدہ جبیں، صابر پیا، رفیق بابر، یعقوب چینا، اشرف مناواں، اسلام شاہ کو کون آپ تک رسائی ہونے دے گا۔ آپ کے قریب تو ا یسے لوگ ہی ہونگے جو اپنے نالائق برادر نسبتی کو پارٹی میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے اوگرا جیسے اداروں کے سربراہ لگواتے اور پھر82ارب روپے کے فراڈ کرواکے ارب دو ارب ایک ہی جھٹکے میں لے اڑتے اور سلاخوں کے پیچھے پائے جانے کی بجائے پھر سیاست سیاست کھیلتے پائے جاتے ہیں۔ موجودہ سیاسی ماحول میں پارٹی کی بہتر یہی تھا کہ بلاول زرداری کو آئندہ انتخابات کے نتائج تک ریزرو ہی رکھا جاتا۔ ان انتخابات میں بہت بری شکست پارٹی کا مقدر دکھائی دے رہی ہے۔ موجودہ پیپلز پارٹی کوذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر کے ساتھ کوئی نسبت نہ ہے۔ ان انتخابات میں پارٹی کی شکست اس کے احیاء کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بلاول کی سوچ صلاحیتوں اور ترجیحات کا مظاہرہ ان انتخابات کے نتائج کے بعد منظر عام پر ہوگا، اگر ان نتائج کے بعد بھی جو کہ پارٹی کی انتخابی تاریخ میں بدترین ثابت ہونے جارہے ہیں۔ بلاول موجودہ پیپلز پارٹی کی قیادت ہی کرنا پسند کریں گے تو پھر ان کا اور ساتھ پارٹی کا بھی اللہ ہی حافظ اور اگر وہ محترمہ بینظیر بھٹو والی پارٹی بنانے کی راہ پر چل نکلے تو یقینا اس کے جسد بے جان میں روح بھی پھونک سکتے ہیں، اسے اس کی نظریاتی اور روایتی اساس کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان انتخابات میں اپنے آپ کو دور رکھیں اسی میں ان کی اور پیپلز پارٹی کی بہتری پوشیدہ ہے۔ و ماعلینا الالبلاغ
تازہ ترین