• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کی قومی حیات نت نئے ایشوز کے سبب سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار رہی ہے۔ ایک ایشو ابھی ختم ہی ہوتا ہے کہ دوسرا انگڑائی لیتا دکھائی دینے لگتا ہے، یہ سلسلہ قیام پاکستان سے اب تک دراز ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ ایشو جس قدر بڑا بنا، وہ اُسی قدر قومی نقصان کا باعث ہوا۔ ایک ایشو جب قد اُٹھاتا ہے تو سراپا رحمت ہی رحمت کا مژدہ لئے ہوتا ہے کہ جیسے ہی اس ایشو کا حل نکل آیا تو گویا بس پھر قومی و عوامی زندگی میں خوشحالی کا انقلاب ہی انقلاب ہوگا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ فوری دوسرا ایشو آنے سے پہلے والے ایشو کے نتائج و عواقب نظروں سے اوجھل کر دئیے جاتے ہیں اور عوام کو کمال ہوشیاری سے نئے ایشو میں مگن کر دیا جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے ایشوز یاد کیجئے کہ ان کے آغاز پر عوام کی کیا کیا اُمیدوں کے بر آنے کا واویلا مچایا گیا تھا اور پھر اس کا نتیجہ آیا کیا؟ اگر ان میں صرف 10فیصد ایشوز کے اختتام پر بھی وہ توقعات پوری ہو جاتیں جو عوام نے وابستہ کر لی تھیں تو شاید آج کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں ہوتا۔ اور یوں مزید ایشو بھی پیدا ہونے کا جوہر کھو چکے ہوتے، تاہم یہ سب کرشمہ اس نظام کا ہے جو آزادی کے بعد سے قائم ہے اور جس پر مخصوص طبقات مسلط ہیں۔ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ان ایشوز کے بعد معیشت و سیاست کو جو نقصان پہنچتا ہے، اُس کا اثر اس اشرافیہ پر کبھی نہیں ہوتا۔ یہ سدا بہار ہیں۔ اگر کچھ عرصے کیلئے یہ اقتدار سے باہر بھی ہو جاتے ہیں تو ان کے طبقاتی مفاد کا کوئی اور نہیں، نئی حکومت میں شامل اس نظام کے رکھوالے ہی تحفظ کرتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات تو نئی حکومت کا حصہ بننے والوں میں سابقہ حکومت ہی کے لوگ ہوتے ہیں، جسکے مظاہر حالیہ حکومت میں آپ کے سامنے ہیں۔ یہ سارا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے ایشوز، جن سے نظام زندگی ٹھپ ہوکر رہ جائے، جن کے دوران عوام ایسے منہمک ہو جائیں کہ وہ اپنے مسائل و دکھ بھول جائیں، ایسے ایشوز اُنہی کیلئے مرعوب ہو سکتے ہیں جنہیں نہ تو مہنگائی کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی ملکی تنزلی سے جن کا کوئی سروکار ہے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے یہ ایشو کھڑا کیا ہوتا ہے اور جو اس ایشو کےحل کیلئے جواب دہ قرار دئیے جاتے ہیں، دونوں دراصل ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ ان عناصر کی دو عملی یہ ہوتی ہے کہ کبھی ایسے ایشو خود پیدا کرتے ہیں اور کبھی اسے ملک کے لئے ضرر رساں گردانتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بعض اوقات کسی بڑے قومی مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلئے بھی کسی ایشو کو میدان میں لایا جاتا ہے، اور اپوزیشن و حکومت دونوں اپنے اپنے ہنر سے عوام کو اس ایشو میں اُلجھائے رکھتےہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم اب بھی ایشو ایشو کھیل رہے ہیں۔ گویا ہمارے شب و روز کو بڑی بیدردی سے حکمران طبقات اپنے اقتدار و مفاد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

اس سارے کھیل میں ہم عوام کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے، یہ حالات کا جبر ہے یا عہدِ کہن کے رکھوالوں کا زہر شیریں کہ ہماری نفسیات یہ بن گئی ہے کہ ہم بھی نت نئے ایشوز کےانتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس کے بنا زندگی گویا بے کیف و بے سرور سی لگتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو بھی نیا ایشو آتا ہے ہم سابقہ ایشوز کے محاسبہ کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پہلے تو اس حوالے سے دو سہولتیں بازار میں دستیاب تھیں، وہ یہ کہ یا تو خود ایشو کا حصہ بن جائیں یا ذرائع ابلاغ میں کھو کر خود کو اس کا حصہ بنائے رکھیں۔ اب مگر تیسری سہولت کے باوصف پورا میدان عوام کی جیب میں سما گیا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام ہر وقت اس ایشو کی حمایت یا مخالفت میں اُن سے بھی زیادہ اپنا اور ملک کا وقت خراب کر سکتے ہیں جو اس ایشو کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اب آزادی مارچ کو لے لیجئے، مولانا تو مولانا، وزیراعلیٰ پختونخوا اور داخلہ کے مشیر و دیگر کے لہو گرم بیانات معاملہ کو مزید گرم بنا رہے ہیں، بالفاظ دیگر حکومت، اپوزیشن و میڈیا کی برکت سے یہ اب ہر گھر کا اہم ایشو بن چکا ہے، اس سے سانحہ کشمیر و مہنگائی (وقتی طور پر سہی) مگر پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ہمیں سرکار یا مارچ کیلئے برسرِ پیکار ہر دو سے کوئی سروکار نہیں، ہم محض بزبانِ خمار بارہ بنکوی گزشتہ ایشوز کے نتائج کا ماتم کر رہے ہیں۔

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم

قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے

تازہ ترین