• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عظمیٰ گل دختر جنرل (ر) حمید گل
عمران خان نے اقوامِ متحدہ میں بہت زبردست تقریر کی۔ واقعی زبردست تھی۔ بہت اچھی بہت جامع اور واضح پیغام کے ساتھ تھی۔ ہر ذی شعور نے تعریف کی اور ہر طبقہ ہائے فکر سے پذیرائی ہوئی۔ ہاں البتہ حزب اختلاف نے دبے لفظوں میں گول مول اعتراضات لگائے کہ فلاں بات کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا اور فلاں کا ذکر تو ہوا ہی نہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ کھل کر کسی نے مخالفت نہ کی نہ ہی تنقید۔ عمران خان صاحب واقعی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ ایسا اعزاز کہ مخالفوں کی بولتی بند ہو جائے چہ جائیکہ کوئی تنقید ہو۔
مشرف دور میں جو باڑ لگانے کی سازش ہوئی اُس نے تو ہمارے بیانیے کو ہی بدل ڈالا کہاں ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی بات کرتے تھے اور کہاں ہم out of box solution کا راگ الاپنے لگے۔ کبھی کشمیر کے مسئلہ کو سرد خانے میں ڈال کر تجارت کی باتیں، کبھی امن کی آشا جیسی کاوشیں۔ ہم تو اب تک سراب کے پیچھے ہی دوڑتے رہے۔ عملاً تو "باڑ کی آڑ "میں کشمیر بانٹ لیا گیا۔ جو تمہارے پاس وہ تمہارا اور جو ہمارے پاس وہ ہمارا۔ گویا ابّا کی چھوڑی ہوئی جائیداد کا بٹوارہ ہو۔ انسان بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح تقسیم کر د ئیےگئے۔ کسی نے نہ سوچا کہ یہ لکیر کشمیریوں کی روح پر کھینچ دی گئی ہے اور وہ کبھی بھی اس طرح کی تقسیم پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ نہ ہی یہ ان کے جذبہ کشمیریئت سےمطابقت رکھتا ہے۔ کشمیری تو دو سو سال سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پچھلے 72سال سے تو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ مگر یہ دفعہ 370 کا وار تو سب سے کاری ثابت ہوا۔ کشمیریئت کا خوابیدہ جذبہ اب پوری طرح سے بیدار ہو گیا ہے۔ گھر گھر میں تحریک کی شمع جلنی شروع ہو چکی ہے۔ خواتین، بچے، بوڑھے، نوجوان غرض یہ کہ ہر طبقے، فرقے پر اس تحریک نے اپنا رنگ چھوڑ دیا ہے۔ وہ جو پہلے اس کی مخا لفت کرتے تھے آج قائدِآعظم کے دو قومی نظریے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ آج تحریک اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اِدھر پاکستان میں بھی قوم بے چین ہے۔ کشمیریوں کی کرب ناک موت و زیست کی اس کشمکش کا احساس کسی لمحے سکون نہیں لینے دیتا۔ پوری قوم اپنی بساط سے بڑھ کر اس معاملے کو آگے لے کر چل رہی ہے۔ اظہار یکجہتی ریلیوں سے لے کر ایل او سی پار کرنے کے لیے ریلیاں، سیمینار، کانفرنسیں اور بھی بہت کچھ۔ قوم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے درد سے تڑپ رہی ہے۔ بے بسی اور لاچاری کا احساس دن بہ دن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے۔ ہر فرد سوال کر رہا ہے کہ باتوں اور تقریروں سے آگے اب کیا؟ کیا ہم نے جوہری صلاحیت صرف مقدس کتابوں کی طرح غلاف میں لپیٹ کر چوم کر رکھنے کے لئے حاصل کی تھی؟ کیا ہماری اعلی ترین افواج صرف زلزلوں اور قدرتی آفات میں امداد دینے، مافیاز کی سرکوبی، سمگلروں اور دہشتگردوں کو ہی پکڑنے کے لئے رہ گئی ہے؟ کیا ہوا فوج کے اس نصب العین کا … "ایمان۔ تقوی۔ جہاد فی سبیل اللہ"۔ آج جب ہمارا بہادر سپہ سلار خود یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہم آخری گولی،آخری فوجی اور آخری سانس تک کشمیر کے لیے لڑیں گے تو انتظار کس بات کا ہے۔ فیصلہ کرنے میں تامل کیسا؟ کیوں اپنی قوم، اپنی فوج اور اپنے اللہ پر بھروسہ کرکے دلیرانہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا ؟ وکالت ہوگئی مگر فیصلے کے لیے غیر جانبدار جج بھی تو ہونے چاہیں۔ کہاں ہیں وہ اقوام عالم میں سے غیرجانبدار جج؟ اُن کے اپنے ملکی، مذہبی اور نظریاتی مفادات اُن کی غیر جانبداری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں ان سے کسی بھی بھلائی اور انصاف کی توقع نہ کرنی چاہیے۔ یہ مسلمان دشمن ہیں یہاں تک کہ بہت سے مسلمان ممالک بھی ان کے ساتھ مل کر مسلمان دشمن کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہی وہ لوگ نہیں ہیں جن کے لئے قرآن میں کہا گیا ہے: اے ایمان والو!یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا۔ المائدہ ۵۱
جناب عمران صاحب خان صاحب وکالت تو آپ نے خوب کی۔ کیس بھی اعلی درجے کا تیار کیا لیکن ہائے اس خامیئی قسمت کا کیا کریں کہ یہ جج توجانبدار ہیں۔ فیصلہ تو ہمارے خلاف ہی آئے گا۔ یا شاید آئے گا ہی نہیں۔ 72سال تو ایسے ہی گزرے ہیں کچھ بعید نہیں کہ مزید 72سال میں پاکستان سے خدانخواستہ ہاتھ ہی دھو بیٹھیں اور کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگے۔ تو پھر کیا کریں؟ مر جائیں؟ تباہ و برباد ہو جائیں؟ نیست و نابود ہو جائیں؟ کیوں ہو جائیں! ہرگز نہیں! کبھی نہیں! آج جو جنگ مقبوضہ کشمیر میں لڑی جائے گی وہ تحفظ کی ضامن ہو گی آزاد کشمیر کی اور پاکستان کی۔ وگرنہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ جنگ کی یہ آگ ہمارے گھروں تک بھی آ جائے گی ۔آج مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ قربانیاں ا ور جانیں ہمارے کشمیری بہن بھائی دے رہے ہیں۔ یا پھرLOC پر ہمارے فوجی جوان اور سولین جو بلا جواز ہندوستان کی فائرنگ کے نتیجہ میں شہید ہو رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہمارا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ ہم تو یہاں سے بیٹھ کر صرف اظہار یکجہتی ہی کر سکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ مگر آخر کب تک؟ اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے۔ لہذا پانچ اگست سے ہمارے خلاف اعلان جنگ ہوچکا اور جنگ شروع بھی ہوچکی ہے اور ہم ابھی تک اس کا ادراک نہیں کر سکے ۔ اب یہ بات سمجھنے کے لئے مزید کتنا وقت درکار ہے؟ اللہ کی قسم ! یہ آگ برف باری اور ٹھنڈ سے نہیں بجھے گی اور نہ ہی اس معاملے کو طول دینے سے۔ جنگ تو اب ہو کے ہی رہے گی جلد یا بدیر۔
جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب اللہ سبحان و تعالی آپ پر مہربان ہے۔ آج ہمیں تمام مسلم امہ کی امامت کا موقع مل رہا ہے۔ آگے بڑھیں اور اس اعزاز کی کملی اپنے کاندھوں پر ڈال لیں۔ ٹیپو سلطان نے کیا خوب کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔ ہمیں اب وکالت کی نہیں امامت کی ضرورت ہے۔ آج پوری قوم کی امامت کرتے ہوئے اللہ سبحان و تعالی کے بھروسے اعلانِ جہاد کریں۔ آپ خود دیکھیں گے کہ کیسے راستے بنتے جائیں گے، گرہیں کھولتی جائیں گی، پیچیدگیاں ختم ہوتی جائیں گی۔ جہاد دراصل مسلمان کی طاقت کا سرچشمہ ہے، جہاد ہی میں زندگی ہےاور جہاد ہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تازہ ترین