• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے معاشرے میں اسٹیفن کنگ جیسے عظیم لکھاری جنم نہیں لیتے یا پھر پذیرائی نہ ہونے کے باعث ایسے مصنف گم نام رہ جاتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جسے میں نے آئندہ کالم میں زیر بحث لانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب کوئی معاشرہ علمی و فکری انحطاط کی طرف جاتا ہے تو زوال یک جہت نہیں ہوتا بلکہ ہر اعتبار سے پستی میں گھر جاتا ہے۔

بالفاظ دیگر ہمارے لکھاری ’’عظیم‘‘ ہیں تو پڑھنے والے بھی ’’عظیم ترین‘‘ ہیں۔ کتب بینی کے کم ہوتے رجحان پر مرثیہ خوانی بعد میں کریں گے پہلے اصحابِ کتاب کے علمی مقام ومرتبے کی شان بیان کرلیں۔ اقبال نے کہا تھا ’’تو کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں‘‘۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ صاحب کتاب تو بہت ارزاں و فرواں ہیں مگر پڑھنے والے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔

جو ایک بار صاحب کتاب ہو جاتے ہیں وہ کتاب پڑھنے سے کتراتے ہیں کیونکہ لکھنے والوں کا پڑھنے سے کیا کام؟ اسٹیفن کنگ جیسے مغربی مصنفین برسہا برس کی عرق ریزی کے بعد تحریر و تصنیف کی طرف مائل ہوتے ہیں مگر ہمارے لکھاریوں کا حوصلہ دیکھیں چند ہفتوں میں کتاب کا مسودہ مکمل ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تصانیف کی فہرست اس قدر طویل ہو جاتی ہے کہ نام یاد رکھنا محال ہو جاتا ہے۔

رہ گیا یہ سوال کہ جن میں اسٹیفن کنگ بننے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ ابھر کر سامنے کیوں نہیں آتے؟ اسٹیفن کنگ کا گلا گھونٹنے کی ابتدا تو گھر سے ہی ہو جاتی ہے۔ گزشتہ کالم میں اسٹیفن کنگ کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس نے پہلے ناول پر کام کرنا شروع کیا تو ابتدائی صفحات کو یہ سوچ کر کوڑا دان میں پھینک دیا کہ وہ اس کہانی کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا پائے گا مگر اس کی بیوی ٹبیتھا نے وہ کاغذ اُٹھا کر پھر سے اس کی میز پر رکھ دیئے اور اسے حوصلہ دیا کہ وہ ایک بہترین ناول لکھ سکتا ہے۔

ہمارے ہاں تو جس دن بیوی کی نظر کرم ہو جائے، صفائی کی نیت سے تمام مسودات و اہم کاغذات کو اُٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اور ’’اسٹیفن کنگ‘‘ اس ’’زوجہ گردی‘‘ کیخلاف آواز اُٹھانے کی جسارت بھی نہیں کر پاتا۔ فکرِ معاش سے فرصت پا کر کسی تخلیقی کام کی طرف مائل ہوتے ہی آواز آتی ہے ’’مُنے کے ابا، گھی، چینی اور آٹا ختم ہو گیا ہے۔ جلدی سے جائیں اور واپس آتے ہوئے کہیں سے گول گپے بھی لیتے آئیں‘‘۔

نان نفقہ کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ایک بار پھر لکھنے بیٹھیں تو تفتیشی افسر کی طرح آس پاس منڈلاتی بیوی کو لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے اور جب اسے بھنک پڑ جائے کہ موصوف کوئی لو اسٹوری تحریر کر رہے ہیں تو اس کا شک یقین میں بدل جاتا ہے اور وہ پینترے بدل بدل کر پوچھنے لگتی ہے، کون ہے وہ کلموہی جسے آپ اب تک نہیں بھولے اور چلے ہیں ناول لکھنے۔ ایسے میں ’’ممکنہ اسٹیفن کنگ‘‘ کا دل چاہتا ہے وہ اپنی کتاب کا مسودہ اُٹھائے اور اپنے ہی منہ پر دے مارے۔

فرض کریں یہ صاحب بہت ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود کتاب کا مسودہ مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اب پبلشر کی تلاش کا کام شروع ہوتا ہے۔ یہ صاحب ان مغالطوں کا شکار ہوتے ہیں کہ پبلشر کی طرف سے انہیں رائلٹی ملے گی مگر اچھے خاصے دھکے کھانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کتاب شائع کروانے کے لئے پبلشر کو پیسے دینا پڑیں گے، یوں اس بیچارے کو گھر کے برتن بیچ کر کتاب شائع کروانا پڑتی ہے اور پھر اس کتاب کا جو حشر ہوتا ہے، وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

فرض کریں، یہ مصنف کچھ جانے پہچانے ہیں اور پبلشر کتاب شائع کرنے کے لئے ان سے رقم کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ انہیں کتاب کی فروخت پر رائلٹی دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی چھپر پھاڑ کمائی کا کوئی امکان نہیں۔ اگر کتاب چلنے والی ہے تو پبلشر دو ہزار کتاب شائع کر کے آپ کو بتائے گا کہ 500کتاب چھاپی ہے۔ گویا 1500 کاپیاں فروخت ہونے کے بعد بھی مصنف کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

ہاں البتہ اگر آپ اتنے خوش قسمت ہیں کہ دو سال بعد وہ باقی 500کاپیاں بھی فروخت ہو جاتی ہیں تو پھر آپ کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر رائلٹی دیدی جائے گی۔ آپ کے پاس کوئی ایسا میکانزم نہیں جس کے تحت یہ معلوم کیا جا سکے کہ کتنی کتابیں شائع کی گئیں، کتنی فروخت ہو گئیں اور کتنی باقی ہیں۔ اگر آپ بہت مقبول لکھاریوں کی صف میں شامل ہیں تو آپ کی کتاب چوری کرکے غیر قانونی طور پر چھاپ دی جائے گی جس سے مصنف اور پبلشر دونوں کو نقصان پہنچے گا۔

اگر آپ کی کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں تبدیل کر کے کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی جاتی ہے تو لوگ وہاں سے ڈائون لوڈ کرتے جائیں گے اور آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ حال ہی میں میرے ناقابل اشاعت کالموں پر مشتمل کتاب ’’لاپتا کالم‘‘ شائع ہوئی تو بہت سے چاہنے والوں نے بطور تحفہ کتاب بھجوانے کی فرمائش اور خواہش کا اظہار کیا۔

ان افراد کی بھی کوئی کمی نہ تھی جنہوں نے پی ڈی ایف فارمیٹ کا تقاضا کیا، کئی ایک نے یہ بھی کہا کہ 800روپے قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ کتاب 800روپے میں بہت مہنگی معلوم ہوتی ہے لیکن 2500روپے میں ماہانہ انٹرنیٹ پیکیج لینے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ پیزا کھانا ہو تو ایک وقت میں 1500روپے خرچ کرتے ہوئے پریشانی نہیں ہوتی لیکن کتاب خریدنی ہو تو ہم ایک دم کفایت شعاری پر اتر آتے ہیں۔ موبائل فون لینا ہو تو مہنگے اینڈرائڈ فون سے کم پر بات نہیں بنتی، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ بہت اچھا درکار ہوتا ہے مگر کتابیں اولڈ بک شاپ سے بھی بھائو تائو کرکے لی جاتی ہیں۔

جو لوگ پانچ ہزار کا جوتا خریدتے وقت نہیں سوچتے مگر پانچ سو کی کتاب لینے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں، انہیں واقعی جوتوں کی ضرورت ہے اور ایسے معاشروں میں اسٹیفن کنگ جنم نہیں لیتے۔

تازہ ترین