• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میدانِ صحافت میں اُترے تقریباً ساٹھ سال ہونے کو آئے ہیں۔ اِس طویل مدت میں کئی حکومتیں بنتے اور گرتے دیکھی ہیں۔ حکمرانوں سے بھی واسطہ پڑا اور اپوزیشن سے بھی۔ آزادیٔ اظہار کے جرم پر سالہا سال جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور سخت پابندیوں کے درمیان حق و صداقت کی شمع فروزاں رکھنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ اِس وادیٔ پُرخار کے ساتھی اکثر یاد آتے ہیں۔ اِن میں سے کتنے ہی دارِ بقا کو سدھار گئے اور بڑی تعداد میں بفضلِ خدا حیات ہیں۔ محمد صلاح الدین شہید، مقبول جہانگیر، جناب مختار حسن، آباد شاہ پوری، ڈاکٹر اقتدا حسن صاحب قرطاسِ ادب و صحافت پر گہرے نقش چھوڑ گئے جبکہ مجیب الرحمٰن شامی، محسن فارانی، سعود ساحر، نواز رَضا، اسد اللہ غالب، رؤف طاہر اور اَمان اللہ شاویزئی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور میڈیا پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ’گھٹ گئے انساں اور بڑھ گئے سائے‘ کے عجیب و غریب مناظر دیکھے ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا جب بڑے سے بڑے آدمی میں بلا کا انکسار اور عاجزی ہوتی تھی۔ وہ ’خاکسار‘ کا لاحقہ لگانا ضروری خیال کرتے تھے۔ بیشتر لوگ اپنے نام کے ساتھ ’احقر‘ لکھتے، گنہگار کا لفظ بکثرت استعمال میں لاتے اور خود نمائی سے بڑی حد تک اجتناب کرتے تھے، البتہ اُن عظیم شخصیتوں کو قوم کی طرف سے اعلیٰ القابات نوازے جاتے رہے جو تاریخی کارنامے سر انجام دیتے رہے۔ ’حکیم الاُمت‘، ’علی برادران‘، ’قائدِاعظم‘ اور ’قائدِ ملت‘ کے القابات عامۃ المسلمین نے دیے تھے جو ہماری تاریخ میں کہکشاں کی طرح جگمگاتے ہیں۔

پھر وہ زمانہ آیا جب بعض افراد نے خود کو اُجاگر کرنے کے لئے حواری تیار کیے اور اپنا قد بڑھانے کی شعوری کوشش کی۔ مجھے اِس حوالے سے ایک حیران کُن تجربہ جناب کوثر نیازی کے ساتھ ہوا۔ وہ غالباً 1955میں روزنامہ ’تسنیم‘ کے ادبی میگزین کے انچارج تھے۔ میں نے 1953میں فوجی عدالت کی طرف سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنائے جانے پر غزل لکھی تھی جسے اشاعت کے لئے جناب کوثر نیازی کو ارسال کی۔ میں کئی ماہ تک اِس کی اشاعت کا انتظار کرتا رہا۔ ایک روز مجھے ہفت روزہ ’شہاب‘ موصول ہوا جس کے ساتھ کوثر نیازی صاحب کا خط بھی منسلک تھا جس پر اُنہوں نے اپنے قلم سے ’مولانا کوثر نیازی‘ تحریر کیا۔ مجھے بہت دھچکا لگا۔ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی باوقار شخص اپنے قلم سے اپنے نام کے ساتھ ’مولانا‘ لکھے گا۔ چند سال قبل مجھے ایک اور حیرت انگیز تجربہ ہوا۔ ایک شام ٹیلی فون آیا اور جو صاحب گفتگو کر رہے تھے، اُن کی آواز سے اندازہ ہوتا تھا کہ پچیس تیس کے پیٹے میں ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا میں علامہ فلاں بات کر رہا ہوں۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا کہ کوئی صاحبِ علم خود کو علامہ کیسے کہہ سکتا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ باصلاحیت افراد کا اب یہی اسلوبِ واردات ہے۔

پاکستان جسے وجود میں آئے 72سال ہو چکے ہیں، اس نے بفضلِ خدا بڑی ترقی کی ہے۔ ایک عہد میں اِسے مسلم ملکوں کی قیادت کا اعزاز حاصل تھا اور وہ انتظامی، تعلیمی اور اِنفراسٹرکچر کے اعتبار سے وہ ایک ترقی یافتہ ملک تھا۔ تمام تر دشواریوں اور آزمائشوں کے باوجود وہ ایٹمی طاقت کا حامل بھی بن گیا ہے اور اِس کا میزائلی نظام پورے جنوبی ایشیا میں نہایت مؤثر سمجھا جاتا ہے، مگر ان عظیم کامیابیوں کے برعکس وہ ایک پائیدار اور مستحکم سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہا۔ اِس کا سب سے بڑا سبب سیاستدانوں کا جھوٹی اَناؤں میں محصور رہنا اور آپس میں دست و گریبان رہنے کا عمل جاری رکھنا ہے۔ اِس کے علاوہ غیر سیاسی ادارے حکومت کے معاملات میں دخل اندازی بھی کرتے آئے ہیں۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اِس میں بھارتی کربلا میں محصور اَسّی لاکھ کشمیری نہایت دلدوز انسانی المیے پروان چڑھ رہے ہیں۔ حضرتِ غالب نے اِسی صورتحال کے بارے میں ایک لافانی شعر کہا تھا

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

چودہ ماہ پہلے ملک میں ایک نئی حکومت وجود میں آئی جس نے خوابوں کے رنگ محل تعمیر کیے تھے۔ وزیرِاعظم عمران خان حالات کی بہتری کے نغمے سناتے رہتے ہیں مگر مختلف وجوہ سے عوام کی اُمیدیں ٹوٹ رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ایک سال میں کایا پلٹ نہیں ہو سکتی۔ اِس نظریے کے بالکل برعکس افریقہ کے ایک انتہائی پس ماندہ ملک میں عظیم انقلاب دیکھنے میں آیا ہے۔ ایتھوپیا کا نام سنتے ہی ایک ایسے علاقے کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جو دو صدیوں سے جنگ و جدل اور قحط سے تباہ حال چلا آ رہا تھا۔ اس کی آبادی کوئی دس کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں ایک تہائی مسلمان ہیں۔ وزیرِاعظم ابی احمد نے اپریل 2018میں انتخابات جیت لینے کے فوراً بعد انقلابی اقدامات شروع کر دیے۔ تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے اور میڈیا کو مکمل آزادی سے ہمکنار کیا۔ اُنہوں نے اُن لوگوں سے معافی مانگی جن پر رِیاست کئی عشروں سے ظلم ڈھاتی چلی آ رہی تھی۔ مختصر سی مدت میں سول سوسائٹی فعال ہو گئی ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے ہمسایہ ملک اریٹیریا سے تعلقات بحال کیے جس کے ساتھ جنگ میں ایک لاکھ افراد موت کی گھاٹ میں اُتر چکے تھے۔ مسلمان باپ اور عیسائی ماں کے بیٹے ابی احمد مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اِن عظیم کارناموں پر اُنہیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ یہ انعام پاکستان میں شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے وزیرِاعظم بھی حاصل کر سکتے ہیں جو جھوٹی اَنا سے مکمل طور پر آزاد ہوں اور عالی ظرف کے مالک ہوں۔ ہمیں اِس وقت مظلوم کشمیریوں کے لئے اسپیس حاصل کرنا اور سفارتی کوششوں سے بھارت کو راہِ راست پر لانا ہو گا۔ اِس مقصد کے لئے بھارت کے اندر اِن آوازوں کو تقویت پہنچانا ہو گی جو مودی فسطائیت کے خلاف بلند ہو رہی ہیں۔

تازہ ترین