• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں نے رکشا ڈرائیور سے کہا کہ میں اسی شہر کے محلہ سوت میں پیدا ہوا تھا۔ وہ بولا ’سر اس وقت ہم محلہ سوت ہی سے گزر رہے ہیں‘۔ میں نے ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا کہ یہاں نہ تو مولوی غفران کی دکان ہے، نہ ڈاک خانہ، نہ ڈاکٹر عبدالمجید کا شفا خانہ، نہ کھیلنے کا میدان، یہاں تو وہ میٹھے ٹھنڈے پانی کا سوت بھی نہیں ہے۔ رکشا ڈرائیور ہنسا، جھوٹی ہنسی۔ اگلی بات کہہ کر اس نے مجھے حیران نہیں کیا، بولا کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔

کوئی مجھ سے پوچھے کہ وہ کیا شے ہے جو مجھے ایک بار پھر روڑکی شہر میں لئے پھر رہی ہے۔ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں کہ میں یہاں پیدا ہوا، بڑا ہوا، تعلیم شروع کی، دوسری عالمی جنگ دیکھی، آزادی کی تحریک اور پھر آزادی کی نصف شب دیکھی اور آخر یہیں زندگی اتنی دشوار ہوتے دیکھی کہ اس شہر اور اس ملک کو خیرباد کہتے ہی بنی۔ پھر کون سی کشش ہے جو اتنا تھکا دینے والا سفر کرکے یہاں آئے ہو؟

لڑکپن کے صبح و شام کے ساتھی غلام صابر اور تیسری کلاس کے ہم جماعت فیض محمد، دونوں چل بسے، ان کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا کس کی ذمہ داری ہوئی؟ جواب ہے:میری۔ غلام صابر تو پچاسی سال جی کر حال ہی میں مرا ہے، میں سیدھا اس کے گھر پہنچا، اس کا بڑا بیٹا تو ہوبہو باپ پر پڑا ہے، وہ جذباتی ہوگیا اور ایک یہ بات بار بار کہی کہ وہ آپ کو بہت یاد کرتے تھے، بہت قصے سناتے تھے آپ کے۔ فیض محمد اچھا بھلا توانا شخص تھا، خوش رنگ، خوش پوشاک، خوش وضع، اچانک دماغ کی رگ ہمت ہار گئی اور چل بسا۔ اُنہی گلیوں سے گزر کر میں اس کے گھر پہنچا، پچھلی بار گیا تھا تو کھلے آنگن میں بستر لگا کر ہم سب سونے لیٹے تھے لیکن اس کے بچوں نے میرے گرد گھیرا ڈال دیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ روڑکی کے پرانے قصے سنائیے، میں ان کی ماں کو پرسا دینے گیا تھا، مجھے دیکھ کر فیض محمد یاد آئے تو آبدیدہ ہو گئیں۔ پورے کنبے نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور خاطر داری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

میرا بھلا سا، سادہ سا، دھیمی دھیمی بہنے والی نہر کے کنارے سلونا سا شہر روڑکی اچھے زمانوں میں صوبہ یو پی میں ہوا کرتا تھا۔ پھر کسی کے جی میں کیا آئی کہ اسے اٹھا کر ایک نئے صوبے میں ڈال دیا جو شوالک پہاڑوں کے آنچل میں آباد تھا اور اس کا بھلا سا نام اُتّرانچل رکھا گیا تھا مگر اس نام میں وہ مخصوص بو نہیں تھی پھر اس کا نام بدل کر اُتّراکھنڈ رکھ دیا گیا۔ کبھی اس شہر کے ماتھے پر ایک چھوٹی سی بندی لگی رہتی تھی، اب کسی نے بڑے سے انگوٹھے سے پوری پیشانی پر سیندور کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ شہر میں وہی دوچار مسجدیں ہیں اور وہی نیچے لہجے میں اذان سنائی دیتی ہے۔

میں دوبارہ کہوں گا، میری پندرہ برس کی غیر حاضری میں ہندوستان میں ایک بڑا کمال ہوا ہے۔ ملک کی آبادی میں متوسط طبقہ حیرت انگیز طور پر پروان چڑھا ہے۔ ہندو ہوں یا مسلمان، سب کا رہن سہن نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے۔ خاص طور پر مسلمانو ں کا طرزِ زندگی صاف نظر آتا ہے کہ پہلے سے اچھا ہے۔ مگر روڑکی والوں کے درمیان بیٹھ کر میں نے یہ بات کہہ تو دی لیکن لوگوں کی آواز اونچی ہوگئی۔ آگے کیا ہوگا، کچھ اندازہ ہے آپ کو؟ میرے پاس جواب نہ تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوؤں پر کوئی خاص نوازش ہو رہی ہو۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سب ہی کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ ملازمتوں کا یہ حال ہے کہ ان کے امتحانوں میں کئی کئی ہزار لڑکے لڑکیاں بیٹھ رہے ہیں۔ یہی حال گرانی کا ہے، ہر چیز کے دام اونچے اور اَور اونچے ہوتے جا رہے ہیں، الزام حکومت پر لگ رہا ہے کہ ٹیکس کے نام پر عوام کی جیبیں ٹٹولی جا رہی ہیں۔ روڑکی والوں کی زبانی میں نے لفظ کرپشن بھی سنا اور یہ بھی کہتے سنا کہ چھوٹے پیمانے پر اور نچلی سطح پر پیسے دیے بغیر کام نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اونچی سطح پر؟ لوگوں نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ وہاں اتنا برا حال نہیں۔

پہاڑی بازار کے نچلے چوک پر مجھ سے باتیں کرتے کرتے لوگ جمع ہوگئے۔وہیں محفل آراستہ ہوگئی اور برابر ہی میں دکان سجائے پانی پوری والے نے زیرے کے پانی کے گول گپے سپلائی کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ان لوگوں کو کشمیر کی صورتحال کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ ان کے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم تھا کہ کشمیر میں کچھ ہو رہا ہے۔ دوسری بات انہیں پاکستان سے قطعی کوئی غرض نہیں تھی۔ میں نے پاکستان کا نام نہیں لیا، انہوں نے بھی نہیں لیا۔ ان کے ذہن میں ان سارے مسئلوں سے بڑا مسئلہ چٹکیاں لے رہا تھا۔ مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ اور جس سب سے بڑی خواہش کا وہ اظہار کر پائے، یہ تھی کہ وہ باہر جانا چاہتے ہیں۔ معمر لوگ اس بارے میں کم ہی بولے، نوجوانوں نے سیدھے سوال کئے، کینیڈا جانے کا کیا طریقہ ہے؟ اب کوئی بتائے تو کیا بتائے۔

چوراہے پر کئی ہوٹل تھے، یونس حلوائی کی دکان پر بریانی کی دیگ قریب قریب خالی ہو چکی تھی اور علاقے کے لوگ ہر طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ فیض محمد کے گھر بھی کھانا تیار تھا۔ مجھے یاد ہے ان کے پرانے مکان میں ایک چھوٹا سا باورچی خانہ ہوا کرتا تھا جس میں لکڑی جلانے والا چولہا تھا اور خاتون خانہ اس کے برابر بیٹھ کر اُس ڈیڑھ ہاتھ لمبے اور اتنے ہی چوڑے کچن میں کبھی پائے پکاتی تھیں اور کبھی نہاری۔ مگر اُس روز فیض محمدکی چھوٹی بیٹی اور بہو نے گیس کے چولہے والے ماڈرن کچن میں میری فرمائش پر بہترین دال اور سبزی ترکاری پکائی۔ لوگوں کی زندگی کے چلن اب پہلے جیسے نہیں رہے، کتنی اچھی بات ہے لیکن اتنی اچھی بھی نہیں۔

تازہ ترین