• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حزب اختلاف جماعتوں کا آزادی مارچ کے بعد اگلا احتجاج مبہم

اسلام آباد (طارق بٹ) جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی ف) اور اس کے آزادی مارچ کی حمایت کرنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں نے وفاقی دارالحکومت میں اپنے اکتوبر 31 کے منصوبہ بند مظاہرے کی پیروی کرتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے اگلے غیر اعلان شدہ احتجاج کو مبہم رکھا ہے، اس حکمت عملی سے ہر کوئی مہم کے مستقبل کے مرحلوں کے باے میں اندازے لگا رہا ہے۔

دی نیوز سے گفتگو کرنے والے حزب اختلاف کے رہنماؤں کا عام گریز یہ تھا کہ ’’ہم 31 اکتوبر کو آزادی مارچ کے بعد اپنے اگلے احتجاج کا اعلان کریں گے‘‘، اُن میں سے زیادہ تر اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 

پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک وفادار رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آزادی مارچ کی مکمل حمایت کرے گی اور اس کے اعلیٰ رہنماء اس میں شرکت کریں گے۔

اُن کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر جے یو آئی ف 31 اکتوبر کے عوامی جلسے کے بعد آزادانہ طور پر اسلام آباد میں دھرنا دیتی ہے تو مسلم لیگ نون دھرنے سے دور رہ سکتی ہے۔ 

سامنے آنے والی بات چیت سے ایک عام خیال یہ نظر آتا ہے کہ جیسے حزب اختلاف کی جماعتیں پورے پاکستان میں اپنی مہم کے سلسلے کا اعلان کرتے ہوئے عوامی جلسے کے بعد منتشر ہوجائیں گی۔ 

نون لیگی رہنما نے حکومت کو دباؤ میں رکھنے کیلئے 31 اکتوبر کے فالو اپ کے طور پر ملک بھر میں عوامی ریلیوں کی حمایت کی۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ سندھ میں آزادی مارچ کو سہولت دی جائے گی اور صوبائی حکومت اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے گی اور اسے کسی بھی مقام پر نہیں روکے گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی آزادی مارچ کی حمایت کر رہی ہے اور اکتوبر 31 کے مظاہرے کی پیروی کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کی جانب سے احتجاج کے اگلے مرحلے کے اعلان کے بعد پی پی اپنی پالیسی اختیار کرے گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ جے یو آئی ف کے سربراہ دھرنا یا تحریک کی کسی اور صورت کی جانب بڑھتے ہیں۔ 

پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں تمام مسائل اور حکومت کے مقابلے میں مشترکا موقف اپنائیں گی اور احتجاج کے حوالے سے مشترکا اسٹریٹجی بنائیں گی۔ 

ایک اور نون لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کی سات رکنی کمیٹی کے مذاکرات حزب اختلاف کے نمائندہ وفد کے ساتھ ہوں گے اور کوئی بھی واحد جماعت انفرادی طور پر اس طرح کی کسی بھی بات چیت میں مشغول نہیں ہوں گی۔ 

دریں اثناء یہ جاننا معلومات افزا ہوگا کہ کون سی جماعت منصوبہ بند آزادی مارچ میں کہاں ہوگی اور کون سی سیاسی قوتیں خود کو اس سے دور رکھیں گی، جماعت اسلامی نا تو اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہے اور نا ہی حکومت کی۔ 

تاہم محض زبانی طور پر اس کی ہمدردی کسی حد تک آزادی مارچ کے ساتھ ہے۔ سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کو اس منصوبہ بند تحریک کے حوالے سے اپنی پالیسی بتانی ہے۔ 

وزیر اعظم عمران خان کے تمام اتحادی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ق لیگ نے اس تحریک کو مسترد کردیا ہے۔ دیگر حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ فنکشنل، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، یم کیو ایم پاکستان اور بلوچستان عوامی پارٹی خاموش ہیں اور آنے والے آزادی مارچ پر اب تک کچھ نہیں کہا ہے۔ حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی اور محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی احتجاج میں حصہ لیں گی۔ 

دریں اثناء ایک انتظامی عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا یا کوئی پیشرفت نہیں ہوتی تو اکتوبر 31 سے پہلے وفاقی دارالحکومت کو ممکنہ طور پر بند کردیا جائے گا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ 500سے زائد شپنگ کنٹینرز اسلام آباد پہنچائے جارہے ہیں۔ سٹی زون میں 250 کنٹینرز طلب کیے گئے ہیں جبکہ دیگر تین زونز میں سے ہر ایک نے سو، سو کنٹینرز کی درخواست کی ہے۔ ہر کنٹینر کا یومیہ کرایہ 5 ہزار روپے ہوگا۔ 

کم سے کم 10 مقامات ایسے ہیں جنہیں کنٹینرز کے ذریعے بند کیا جاسکتا ہے، ان میں ریڈ زون، پی ٹی وی چوک، ایوب چوک، آغا خان روڈ، سیکریٹریٹ چوک، کانسٹیٹیوشن چوک، ریڈیو پاکستان چوک، سرینا چوک اور کنونشن سینٹر چوک وغیرہ شامل ہیں۔

تازہ ترین