• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قیام کو لگ بھگ سترہ برس ہو ئےتھے۔ قوم محض ڈیڑھ ہی عشرے میں قائدِاعظم محمّد علی جناح،لیاقت علی خاں، خواجہ ناظم الدّین جیسے نام وَر اور مخلص رہنماؤں سے محروم ہو چکی تھی اور پاکستان میں27 اکتوبر 1958 ء کا اوّلین مارشل لا اپنی طاقت اور ہیبت کے ساتھ نافذ تھا۔جب کہ مطلق العنان حکومت کو للکارنے والی سب سے توانا آواز، مغربی پاکستان کے چیف جسٹس ،ایم آر کیانی بھی 1963 ء میں اچانک انتقال کر گئے تھے۔ مُلک کے اوّلین فوجی حکمران، صدر ایّوب خاں کی حکومت کا چھٹا سال تھا۔ 

لوگوں کو سیاسی ،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں سے آگاہ رکھنے کے محض دو ہی ذرایع تھے،ایک سرکاری انتظام کے تحت چلنے والا’’ ریڈیو پاکستان‘‘ اور دوسرا قومی اور علاقائی اخبارات، جن میں سے زیادہ تر حکومت کی نگرانی میں کام کیا کرتے۔ ایسے میں نومبر 1964ء میں حکومت کی طرف سے اس قسم کے اعلانات سامنے آنے لگے کہ مُلک میں پہلی بار ٹیلی ویژن متعارف کروایا جا رہا ہے ،جس کی بہ دولت لوگ تفریح اور معلومات کی نئی اور تیز رفتار دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔ 

یہ تمام خبریں لوگوں کے لیے انتہائی خوش گوار ہونے کے ساتھ موجبِ سنسنی بھی تھیں کہ ایک ایسا ذریعہ سامنے آ رہا ہے کہ جس کی مدد سے وہ انسانوں کو اسکرین پر چلتا پھرتا اور گفتگو کرتا دیکھ سکیں گے۔برطانیہ اس معاملے میں پوری دنیا پر سبقت رکھتا تھا کہ وہاں 1936 ء میں ٹی وی متعارف کروایا جا چکا تھا۔اگلا مُلک جس نے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا ،وہ جاپان تھا،جہاں 1938ء -1939ء میں بیسویں صدی کی اس حیرت انگیز ایجاد نے قدم جمائے۔

اے ڈی اظہر تا اسلم اظہر
اے ڈی اظہرکی اہلِ خانہ کے ساتھ ایک یاد گار تصویر

پاکستان میں اس حوالے سے گفتگو حیران کُن ہی تھی کہ پڑوسی ممالک میں اس ٹیکنالوجی کی کوئی بازگشت تک سُننے میں نہیں آئی تھی اور پاکستان اس عنوان سے اپنے پڑوسی ممالک پر سبقت لے جانے والا تھا۔ در اصل صدر ایّوب خاں نے جب جاپان کا دَورہ کیا ،تو وہ لوگوں پر ٹیلی ویژن کے مرتّب ہونے والے اثرات سے بہت متاثر ہوئے اور یہ منصوبہ بنانے لگے کہ اگر کسی طرح اس ایجاد کو پاکستان میں متعارف کروادیا جائے،تووہ پاکستانی عوام میں بے حد مقبول ہوجائیں گے۔یہ تو اس بات کا ایک پہلو تھا۔ 

اسی کے ساتھ اس سارے معاملے کے پیچھے پاکستان کے ایک صنعت کار،سیّد واجد علی کا بھی کچھ نہ کچھ حصّہ بتایا جاتاہے۔وہ ایک مشہور خاندان کے فرد تھے،اُن کے والد مراتب علی بھی صاحبِ حیثیت اور اچھی شہرت کے حامل انسان تھے۔ چچا امجد علی برطانوی عہد میں سوِل سرونٹ رہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد پچاس کے عشرے میں امریکا میں پاکستان کے سفیر مقرّرہوئے اور 1956ء میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ بھی رہے۔ خود واجد علی گورنمنٹ کالج لاہور کے گریجویٹ تھے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انڈین آرمی میں کمیشنڈ آفیسر رہے اور اسی حیثیت میں دوسری عالمی جنگ میں شرکت کی۔ 

اے ڈی اظہر تا اسلم اظہر
اسلم اظہر اہلِ خانہ کے ساتھ خوش گوار موڈ میں

چالیس کے عشرے میں فوجی ملازمت ترک کر کے تجارت کی طرف آئے اور رحیم یار خان میں ٹیکسٹائل کی صنعت قائم کی، تحریکِ پاکستان میں بھی پورا حصّہ لیااور پاکستان کے قیام کے بعد تجارت کی طرف بھی بھر پور توجّہ دی۔وہ کھیلوں سے بھی خصوصی دل چسپی رکھتے تھے ۔ ستّر کے عشرے میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ اُن کے ادارے نے جاپان کی ایک الیکٹرک کمپنی سے ایک معاہدہ کیا،جس کا مقصد پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کی داغ بیل ڈالنا تھا۔یہ بات چیت خاصے عرصے تک جاری رہی اور اس اثنا آزمائشی نشریات کو بھی جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا گیا۔ 

جب صدر ایّوب خاں کو اس پیش رفت کی اطلاع ہوئی، تو اُنہیں خیال آیا کہ اُن کی حکومت نے بھی اس معاملے میں کچھ کام کیا ہے،لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اب اس حوالے سےحکومتی سطح پر پیش قدمی کی جائے۔چناں چہ اس پورے معاملے میں حکومت نے اپنا وزن ڈال دیا۔یوں 26 نومبر 1964 ء کولاہور سے پاکستان ٹیلی وژن کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔اُس کے اگلے ہی برس یعنی 1965 ء میں ڈھاکا ، پھر راول پنڈی اور 1966 ء میں کراچی سے نشریات کا آغاز ہوا۔تاہم، اُن پورے سلسلے میں جس شخص نے غیر معمولی کام کیا ،اُن کا نام اسلم اظہر ہے ، جنہیں ’’فادر آف پی ٹی وی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اسلم اظہر کے والد، اے ڈی اظہر ایک نام وَر ادیب، شاعر اور دانش وَر تھےاور اُن کی پیدائش سیال کوٹ میں ہوئی۔گرچہ اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز رہے، مگر ادب سے اُلفت آخر دَم تک قائم رہی۔ اُردو، انگریزی، فارسی، عربی، صَرف و نحو، غرض جامع کمالات۔نام تو احمد دین اظہر تھا،تاہم ادبی دنیا میں اے ڈی اظہر کے نام سے کچھ اس طرح مشہور ہوئے کہ لوگ اصل نام شاید فراموش ہی کر گئے۔مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ اے ڈی اظہر کے نام سے شناخت بھی کچھ وقت بعد قائم ہوئی، کیوں کہ ابتدائی وقت میں جب ادبی مضامین تحریر کرتے تو بہ جائے اپنے اصلی نام کے، قلمی نام کا سہارا لیتے اور یہ نام ’’ملّا نصر الدین ‘‘اور ’’الف م شمس‘‘ ہوتا۔ برطانوی راج کے دِنوں ہی سے سرکاری ملازمت کیا کرتے۔ 

اے ڈی اظہر کے والد گرچہ نصابی تعلیم سے بے بہرہ تھے، لیکن وہ تعلیم کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُن کی توجّہ کا مرکز دینی میدان رہا،انہیں علماء کی صحبت بہت بھاتی تھی۔تاہم، اُن کے لیے دو باتیں پریشان کُن تھیں، اوّل یہ کہ اُن کے گاؤں میں کوئی تعلیمی ادارہ یا مدرسہ نہیں تھا،دوم یہ کہ اُن کا بچّہ جسمانی طور پر خاصا کم زور تھا۔وہ بہت کوشش کرتے کہ بچّہ کھیل کود میں دل چسپی لے،لیکن وہ اپنی دنیا ہی میں مگن رہتا۔ گاؤںمیںتربیت کی واحد جگہ مسجد تھی کہ جہاں مولوی صاحب محلّے کے تمام بچّوں کو درس دیا کرتے۔ 

نماز، روزہ، درسِ کلامِ پاک اور روزمرّہ زندگی کےمسائل ہی سے دنیا شروع ہوتی اور اُن ہی پر ختم ہو جاتی۔ احمد دین نے یہ سارے اسباق جلدی جلدی ختم کر لیے اور اب طبیعت کو مزید علم کی جستجو لاحق ہوئی،مگر وہاں اُس کا امکان ہی نہ تھا۔تب والد کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر میرا بچّہ فقط ان ہی اُمور تک محدود رہا تو آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ روشن نہ ہو سکیں گے، سو تعلیم کی روشنی کو بیٹے کی زندگی میں بکھیرنے کی لگن میں مگن باپ نے بیٹے کو گاؤں سے باہر واقع ایک مکتب میں داخل کروا دیا۔ 

اپنے گاؤں میںاحمد دین اظہر کی شہرت کی بنیاد کچھ یوں قائم ہوئی تھی کہ مسجد میں مہیّا کتابوں کے اسباق کے بعد اُس نے نور نامہ،مثنوی گلزار ِیوسف،ہیر وارث شاہ ،سیف الملوک کے اسباق نہ صرف یاد کر لیے تھے،بلکہ بآوازِ بلندوبہ سوزِ لحن سنایابھی کرتا۔شروع شروع میں تو احمد دین کو وہاں پڑھنے میں لُطف آیا۔تاہم، پڑھائی سے بے زارچند دوستوں کی صحبت نے اُس کا دل بھی پڑھائی سے اُچاٹ کر دیا اور وہ کھیل کود میں پوری طرح مشغول ہو گیا۔ یہ تبدیلی خود اُس کے لیے یوں خوش بختی کا باعث بنی کہ دوڑ بھاگ اور جسمانی محنت بہت سے عوارض سے چھٹکارے اور نجات کا سبب بن گئی۔ بے نصاب باپ، بیٹے کو بے کتاب دیکھنے کی تاب نہ لا سکا۔ وہ ایک عزم سے سیال کوٹ گیا اور گلستانِ سعدی اور عربی صَرف و نحو کی کتاب لے آیا ۔ 

بیٹے کو کتاب تھماتے باپ نے تمتماتے چہرے سے ربّ سے دُعا کی کہ’’ بیٹے کا کتاب میں جی لگ جائے‘‘ اور ساتھ ہی بیٹے کو تاکید کی کہ ’’اسے دھیان سے پڑھو گے ، تو آگے ضرور بڑھو گے‘‘شاید یہ قبولیتِ دُعا کی گھڑی تھی کہ اُس کے بعد احمد دین نے کتاب سے ایسا رشتہ استوار کیا کہ ہر جماعت میں ہم جماعتوں سے آگے بھی رہا اور اسکولوں اور کالجوں سے وظیفہ بھی ملتا رہا۔ مضامین تو دیگر بھی پسند آتے تاہم، ریاضی اے ڈی اظہر کا پسندیدہ مضمون ثابت ہوا۔وقت گزرا ، لڑکپن نے رخصت لی اور اے ڈی اظہر نے نوجوانی میں قدم رکھا۔ 

نوجوان احمد دین کی طبیعت میں بلا کا تنوّع دَر آیا۔ ایک طرف ریاضی سے پسندیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی ، تو دوسری جانب انگریزی ادبیات کو پوری طرح ذہن میں منتقل کر لینے کی دُھن۔یوں بی اے آنرز میں انگریزی ادبیات پڑھتے ہوئے اُس میں امتیازی حیثیت سے کام یابی بھی حاصل کر لی۔ یہی نہیں، عربی زبان سےذوق و شوق کا بھی وہ عالم تھاکہ جو دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیتا کہ آخر یہ نوجوان کن بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہے۔ اُدھر فارسی کا معاملہ یہ رہا کہ منشی فاضل کا امتحان دیا، تو اُس میں بھی کام یابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ 

یہی وہ زمانہ بھی تھا کہ اے ڈی اظہر کو شمس العلماء ،مولوی میر حسن کی شاگردی میں رہنے کا موقع ملا۔ یہ وہی مولوی میر حسن تھے کہ جو سیال کوٹ کی زرخیز مٹّی سے جنم لینے والے اقبالؔ اور فیضؔجیسے دیدہ وَر کے بھی استاد رہ چکے تھے،سو اُن کی مضبوط اور گہری شخصیت اے ڈی اظہر کو کیوں کر نہ متاثر کرتی،چناں چہ لائق استاد کے فائق شاگرد ، اے ڈی اظہر نے برملا اس بات کااظہار کیا کہ مولوی میر حسن جیسے استاد اب شاید دیکھنے ہی میں نہیں آتے۔ ہمہ وقت علم کی جستجو میں مگن اے ڈی اظہر کام یابیوںا ور کامرانیوں کی راہ میں مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ 

ریاضی کے مضمون سے شغف نے اپنا رنگ دکھلایا اور ان سرکاری محکموں میں ملازمت ملنے لگی کہ جن کا تعلق مالیات سے تھا۔جلد ہی فکرِ عالی نے اقتصادی خوش حالی کی راہ ہم وار کر دی۔تیس کے عشرے کی ابتدا تھی ،برّصغیر کی سیاست ہنگامہ خیزرُخ اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اے ڈی اظہر کی زندگی میں بھی بہت سے ہنگامے جاری تھے کہ اُسی دَوران اُن کی زندگی نے ایک نیا رُخ لیا اور وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔

جہاں وہ بہت سے محاذوں پر مصروف تھے،وہاں اب خانگی مصروفیات بھی اُن سے طالبِ وقت کا پیہم تقاضا کرنے لگیں۔اُن کی اہلیہ پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔ وہ ایک اسکول میں ریاضی کی تعلیم دیتی تھیں۔ یوں ریاضی سے شغف رکھنے والے اے ڈی اظہر کی شریکِ سفر ، اُن کی شریکِ مضمون بھی ثابت ہوئیں۔

مطالعہ تو زندگی کا ایک حصّہ تھا اور وہ بھی اس شکل میں کہ کتاب پڑھتے پڑھتے اُس کے حاشیے پر قلم چلتا رہتااور کبھی اُن کے اور مصنّف کے خیالات میں اتفاق اور کبھی اختلاف تحریر ی شکل اختیار کر جاتا۔ کتاب خریدنا بھی زندگی کےدیگر کاموں کی طرح ایک لازمی کام کی حیثیت رکھتا۔ کتابوں کی دُکان ہر آن متاثر کرتی۔

جب کبھی کتابوں کی دکان پر جاتے تو دُکان میں داخل ہونے والے پہلے اور باہر آنے والے شاید آخری آدمی ہوتے۔ اُن کامعاملہ اب کچھ اس طرح کا تھا کہ مطالعہ تو گہرا اور رچا بسا تھا ہی اور جاننے پہچاننے والے اُنہیں ایک فرد یا شخص کی بہ جائے محفل یا انجمن قرار دیتے کہ جہاں جاتے، محفل آباد ہو جاتی۔ کبھی کسی مشاعرے کی صدارت، تو کہیں کسی تعلیمی ادارے میں مباحثے کے نگراں۔

کبھی مقالہ پڑھا جا رہا ہے، تو کہیں بحیثیت شاعر غزل یا نظم ۔ کبھی کسی رسالے کے لیے کوئی تحقیقی مضمون لکھا جا رہا ہے، تو کہیں کسی اخبار کے لیے کوئی فرمائشی تحریر رقم ہو رہی ہے۔کہیں عروضی مسائل پر سیرِ حاصل گفتگو ، تو کبھی الفاظ کے مخرج، مخزن، تلفّظ اور اِملا کے سلسلے میں علمی موشگافیاں۔ 

اسلام کا دیگر ادیان سے موازنہ، برّصغیر کے مختلف علاقوں میں اُردو کی ترویج اور ترقی کی رفتار، پنجاب کی قدیم اور جدید روایات کی تاریخ، غرض موضوعات اَدَق، تاہم لب و لہجہ سادہ اور آسان۔ملازمتی مصروفیات کے باعث اندرونِ مُلک اور بیرونِ ملک بھی سفر درپیش، گویا کارِ معمول میں سے ایک۔آسٹریلیا میں پاکستان کے اوّلین تجارتی کمشنر کے طور پر تعینات کیے گئے۔ پنجاب کے سیکریٹری خزانہ کا اہم منصب بھی سنبھالا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب پنجاب کے گورنر سر فرانسس موڈی ہوا کرتے تھے۔ 

اے ڈی اظہر کی اُردو سے محبت کا اظہار کچھ یوں رنگ لایا کہ وہ اپنے محکمے کے بہت سے اُمور میں اُردو زبان کو فوقیت دیتے۔ اور تو اورایک بڑے سرکاری افسر ہونے کی بِنا پر حکومت کی طرف سے دفتر میں جو الگ اور بڑا کمرا دیا گیا تھا،وہاں اپنے نام کی تختی اور منصب یعنی ’’Finance Secretary:A.D.Azhar ‘‘ کو اُردو میں ’’دبیرِ مالیات: احمد دین اظہر‘‘ میں تبدیل کر دیا اور یوں اپنی زبان سے اُلفت کا عملی مظاہرہ کر کے لوگوں میں اپنی شناخت قائم کی۔ایک طرف دفتری اُمور کی انجام دہی تو دوسری جانب لکھنے پڑھنے سے شغف انتہاکو پہنچا ہوا۔ 

’’لذّتِ آوارگی‘‘ کے عنوان سے اُن کا مجموعۂ کلام موجود ہے،جس میں اُن کی منتخب غزلیں ، نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کا مقدّمہ ممتاز شاعراور ادیب،سیّد ضمیر جعفری کا تحریر کردہ ہے،جسے پڑھ کر اے ڈی اظہر کی زندگی کے بہت سے مخفی گوشے نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔اے ڈی اظہر کا رنگِ سُخن کچھ یوں تھا؎ راہِ اُلفت میں اِک ایسا بھی مقام آتا ہے…کہ جہاں کام نہ آغاز،نہ انجام سے ہے۔ ؎ جہاں میں آج اندھیرا ہے مہر و ماہ سے بھی …مِرے دیار میں جب،مہرِ یار،تُو نہ رہی…تِرے ہی رُخ سے نظاروں کا رُوپ رنگیں تھا…جہاں میں اپنے لیے کیا رہا؟جو تُو نہ رہی۔؎ یہ حُسن کیا ہے؟دل آتا ہے اس پہ کیوں…اظہرؔ تُو اہلِ راز سے ہے،اس کا بھی جواب تو دے۔

1932 ء میںماڈل ٹاؤن، لاہور میں اے ڈی اظہر کے گھر ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام اسلم اظہر رکھا گیا۔اسکول و کالج کے زمانے میں اسے سائنسی موضوعات سے لگاؤ رہا،خاص طور پر ریاضی سے کہ ماں اور باپ دونوں ہی مذکورہ مضمون سے عشق کرتے رہے۔ اسی کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی خُوب شغف تھا،خصوصاً تقریری مقابلے میں تو اسلم اظہر کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہ پاتا۔ تقریر اور وہ بھی انگریزی میں اس جوش و خروش سے کرتے کہ ساتھی طلبہ تو ایک طرف ،اساتذہ بھی حیران رہ جاتے۔

1947ء کا سال تھا۔ برّصغیر کی آزادی کا کارواںاپنی منزل پر پہنچا ہی چاہتا تھا۔ عنفوانِ شباب کی منزل پر قدم رکھنے والے اسلم اظہر بھی بہت پُرجوش تھے اور اکثر اپنے دوستوں میں بیٹھ کر تازہ ترین صورتِ حال پرگفتگوکرتے۔ اسی اثنا میں،مارچ 1947ء میں سینٹرل ماڈل اسکول،لاہور سے میٹرک کی سند بھی حاصل کر لی۔یہاں کے ایک استاداور اسلم اظہر کے کلاس ٹیچر غلام نبی بٹ ،جو اُنہیں انگریزی اور ریاضی پڑھاتےتھے،اپنے تمام شاگردوں میں سے اسلم کو بہت چاہتے اور اس پرخاص توجّہ دیتے،یوں اُن کی توجّہ ، تعلیم و تربیت نے اسلم اظہر کی شخصیت پر اَن مٹ اثرات مرتّب کیے۔ 

اب اُمنگوں اور ترنگوں بھرا دَور شروع ہوا۔ آزادی کا سفر بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا کہ اُن کے والد اے ڈی اظہر کو آسٹریلیا بھیج دیا گیا، یوں اسلم اظہر نے ایک سال سڈنی میں گزارا۔ تاہم، انہوں نے یہ وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ وہاں سے فرسٹ ایئر کا امتحان دیا اور اگلے برس پاکستان واپس آ کر گورنمنٹ کالج سے انٹر اور پھر گریجویشن کیا۔ طبیعات اور ریاضی خاص مضامین تھے۔ جب تک اسکول اور کالج کی زندگی تھی،ہردل عزیزی ہم قدم رہی۔ شاید یہی صلاحیت تھی کہ ریڈیو پاکستان کا رُخ کیا اور انگریزی خبریں پڑھنے پر مامور کر دئیے گئے۔ تقریر کے علاوہ تھیٹر، دل چسپی کا دوسرا سب سے بڑا محور تھا۔ انہیں انگریزی ڈراموں اور خاص طور پر برنارڈ شا کے ڈرامے بہت بھاتے۔

تاہم، اُن سب سے بڑھ کر شیکسپیئر کے ڈرامے تھے کہ جن کی پسندیدگی سب سے بالا تھی۔طبیعات کا مضمون اب تک طبیعت کو متاثر کرتااور جی چاہتا کہ اسی موضوع کو بنیاد بنا کر کوئی بڑا کام کیا جائے،لیکن حیران کُن طور پر ریاضی سے دل چسپی معدوم ہو گئی تھی،اسلم اظہر کو خیال آیا کہ اب موضوع ہی یک سر تبدیل کر لینا چاہیے ، تونگاہِ انتخاب قانون پر ٹھہری،سو اسلم اظہر نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونی وَرسٹی ،برطانیہ کا رُخ کیا۔یہاں قیام کے دَوران ایک جرمن خاتون سے شادی بھی کر لی۔

تاہم ،کچھ معاملات کے باعث وہ زیادہ مدّت تک چل نہ سکی۔1954 ء میں وہاں سے ماسٹرز کی سند تو حاصل کر لی،لیکن فوری طور پر یہ احساس ہو چلا کہ وکالت مزاج کا حصّہ نہیں بن پائے گی۔البتہ اتنا ضرور ہوا کہ حاصل کی گئی تعلیم نے ذہنی اُفق وسیع تر کر دیا۔ اب ملازمت کی تلاش شروع ہوئی اور جلد ہی برما آئل کمپنی سے وابستگی اختیار کر لی۔ 

کراچی میں کچھ وقت کام کرنے کے بعد اُنہیںسوئی گیس فیلڈ میں ایڈمنسٹریٹیو مینیجر کے طور پر تعیّنات کر دیا گیا۔لگ بھگ ایک برس اس عُہدے پر کام کیا۔یہاں سے چٹاگانگ، مشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ مگر طبیعت کی اُفتادگی نے وہاں بھی چین سے نہ رہنے دیااور جنرل مینیجر کو استعفیٰ دے کر کراچی چلے آئے۔ایک مرتبہ پھر ریڈیو کا رُخ کیا۔اُس زمانے میں سلیم گیلانی ٹرانسکرپشن سروس کے ڈائریکٹر تھے۔اسلم اظہر نے اُن کے ساتھ مل کر موسیقی اور ثقافت پر بہت سی ڈاکیومینٹریز بنائیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ ذہن نے فیصلہ کیا کہ اب شوبز کی دنیا ہی میں رہ کر کام کرنا ہے۔ 

گرچہ چند لوگوں نے یہ کہہ کر مخالفت بھی کہ بیرونِ مُلک سے قانون کی سند لے کر آنے کے بعد ایسی دنیا میں جانا کہ جہاں روزگار کا کوئی مستقل بندوبست نہ ہو،کوئی عقل مندانہ کام نہیں۔تاہم، اسلم اظہر نے تہیّہ کر لیا تھاکہ کچھ ہو جائے ،زندگی فائن آرٹ یا فنونِ لطیفہ سے وابستہ رہتے ہوئے ہی گزاری جائے گی۔ یوں ڈاکیومینٹری بنانےکے ساتھ تھیٹر کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔اسلم اظہر کے ساتھ فرید احمد بھی موجود ہوتے، جنہیں ’’سمیع‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

یہ تھیٹر کے دل دادگان میں سے تھے۔ تھیٹر ہی سے دل چسپی رکھنے والے واجد محمود اس کے لیے سرمایہ فراہم کرتے۔یہ ساری سرگرمیاں’’کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی‘‘ کے تحت انجام دی جاتیں۔کراچی کے ’’تھیوسوفیکل ہال‘‘میں پیش کیے جانے والے تھیٹر کو لوگ بہت پسند کرتے۔اُن ہی دنوں کا قصّہ ہے کہ نسرین جان نامی خاتون سے ربط و ضبط اتنا بڑھا کہ اُنہیں شریکِ زندگی ہی بنا لیا۔

1964 ء کا سال تھا کہ حکومت کی طرف سے اسلم اظہر کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے وسیع تجربے کے پیشِ نظر ٹیلی ویژن سینٹر کے انتظامات سنبھالیں کہ جس کا آغاز حکومت لاہور سے کرنا چاہتی تھی۔یہ بنیادی طور پر جاپانی حکومت کے اشتراک سے ’’پائلٹ ٹیلی ویژن اسٹیشن‘‘ تھا۔ ذہانت سے پُر اور دُوررس نظر رکھنے والے اسلم اظہر نے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔گرچہ اُنہوں نے جاپانی ماہرین سے یہ کہا کہ وہ ٹیلی ویژن کے بارے میں شاید بنیادی باتوں سے بھی آگاہ نہیں ۔

تاہم، ماہرین کا جواب تھا کہ آپ کے مُلک میں کوئی بھی اس سے متعلق واقفیت نہیں رکھتا،لہٰذا آپ سب سے بہتر ہیں۔ یوںاسلم اظہر نے آمادگی ظاہر کر دی اور ’’پروگرام ڈائریکٹر‘‘کے طور پر ذمّے داریاں سنبھال لیں۔ جو لوگ اُن کے رفیقِ کار بنے اُن میں فضل کمال ،ذکا ء دُرّانی اورنثار حُسین شامل تھے۔تیکنیکی معاونت کے لیے بھی کچھ لوگ ساتھ لیے گئے۔ آغازِ کار کے طور پرالحمرا ، لاہور میں جگہ حاصل کی گئی اور اسلم اظہر کی قیادت میں چند افراد کا یہ کارواں ایک ایسی منزل کی طرف رواں دواں ہو گیا، جس کے راستے بے حد پُر پیچ تھے۔

آزمائشی بنیادوں پر تین ماہ کے لیے جاری رہنے والی نشریات انتہائی کام یاب رہی اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ ٹی وی نشریات کو مستقل بنیادوں پر جاری کر دیا جائے۔ابتدا میں نشریات کا دورانیہ شام چھےبجے سے رات نو بجے رکھا گیا،جس میں پیر کی تعطیل کا ایک یوم بھی شامل تھا۔ تمام پروگرام براہِ راست نشر کیے جاتے۔ سب کچھ نیا نیا اور تجرباتی تھا۔ تاہم ، حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ مُلک کی عمومی فضا بہت حد تک روشن خیال تھی اور اس بِنا پر اسلم اظہر کو یہ اُمید تھی کہ وہ ٹی وی کے ذریعے ایسا کچھ پیش کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے، جسے عوام میں پسندیدگی ملے۔ 

مگر امتحان یہ تھا کہ خبریں کیسے پیش کی جائیں، ڈراموں کو پیش کرنے کا سلسلہ کیا ہو گا،اشتہارات کیسے آن ایئرہوں گے، وغیرہ وغیرہ وہ سوالات تھے ،جو پی ٹی وی ،خاص طور پر اسلم اظہر کے سامنے تھے۔اسلم اظہر اور اُن کی ٹیم کے سامنے اس قسم کے پروگرامزکی تیاری کا نہ تو کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی کوئی مثال،سو انہوں نےاپنی لیاقت کے سہارے کام شروع کیا۔ ڈراموں کے لیے اچھے اچھے قلم کاروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔اشفاق احمد،بانو قدسیہ،ڈاکٹر انور سجّاد سے قلمی تعاون کی درخواست کی گئی۔بچّوں اور خواتین کے پروگرامز کے لیے اُن کی اہلیہ نسرین نے اپنی خدمات پیش کیں۔ 

خبریں پیش کرنے کے انداز میں بُردباری ، وقار کا پہلو نمایاںاور دُرست تلفّظ پر خاص توجّہ مرکوز کی گئی۔پروگرام میں کسی قسم کی قطع و بُرید کا کوئی امکان نہ تھا کہ کوئی سینسر شپ عائد نہیں تھی۔تاہم ،یہ رویّہ خبروں کے سلسلے میں نہیں تھا،کیوںکہ فوجی حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کے لیے اپنی ہی خبروں کو اسکرین تک آنے دیتی۔ یوں پی ٹی وی کا آغاز ہوا اور اُس نے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ پی ٹی وی سے پیش کی جانے والی خبروں، تبصروں، ڈراموں،موسیقی کے پروگراموں اور اشتہارات کے چرچے ہونے لگے۔ 

گھروں، دفتروں، بازاروں، شادی بیاہ کی تقریبات، غرض جہاں دو چار لوگ جمع ہوتے،پی ٹی وی کی باتیں کی جاتیں۔بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن اسکرین نے ملک میں رنگینیاں بکھیردیں۔ پھر تو یہ عالم ہوا کہ بقول میرؔ؎ ہم ہوئے ،تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے … اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ پی ٹی وی، لاہورکے بعد رفتہ رفتہ کئی سینٹرز قائم کیے گئے۔1964 ء سے 1968 ء تک کا دَور اسلم اظہر کے لیے اس قدر مصروفیت کا تھا کہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک معرکے بعد دوسرے معرکے کا سامنا رہتا۔ 

محدود وسائل میں رہتے ہوئے اُنہوں نے پی ٹی وی کو محض تین سے چار برس کے اندر ایک متاثرکُن ادارے میں تبدیل کر دیا۔ کیا اپنے اور کیا غیر،سب ہی اُن کی لیاقت، دیانت اور قائدانہ صلاحیتوں کے قائل ہو گئے۔ اُسی سال حکومت نے اُنہیں مثالی خدمات انجام دینے کے صلے میں ’’تمغۂ پاکستان‘‘ سے نوازا۔ 1970ء کے انتخابات مُلک کے اوّلین انتخابات تھے۔ پی ٹی وی پر خصوصی اور بھاری ذمّےداری عائد تھی کہ کس طرح انتخابات کی نشریات پیش کی جائیں۔ 

انتخابی حلقے مُلک کے دونوں بازوؤں یعنی مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلا دیش)اور مغربی پاکستان پر محیط تھے۔پی ٹی وی کے پاس ٹیکنالوجی اور وسائل محدود تھے۔اسلم اظہر نے اعلیٰ حکّام کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ تمام قومی رہنماؤں کو پی ٹی وی پریکساں موقع فراہم کیا جائے ،تاکہ وہ قوم کے سامنے اپنا منشور اور خیالات پیش کر سکیں۔یوں ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان، مولانا بھاشانی،خان عبدا لقیوم خان اور دیگر رہنما پیش ہوئے۔مجیب الرحمان کا اصرار تھاکہ وہ مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلا دیش کا نام استعمال کریں گے اور اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی۔

انتخابات کے نتائج براہ ِراست نشر کرنے کے لیے خصوصی ’’الیکشن ٹرانسمیشن ‘‘ تیار کی گئی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا،جو وقتا فوقتاً سامنے آنے والے نتائج پر تجزیہ پیش کرتے۔ درمیان میں ڈراموں، نغموں اور اشتہارات کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ پی ٹی وی کی اوّلین الیکشن ٹرانسمیشن کی بازگشت آنے والے وقتوں میں بھی سنائی دیتی رہی۔ یوں پی ٹی وی نے محدود تر وسائل کے ساتھ ایک غیر معمولی کام یابی حاصل کی،جس کے پیچھے بنیادی شخصیت اسلم اظہر کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور جنرل محمد ضیاء الحق کا مارشل لا، اسلم اظہر کے لیے نامساعد حالات کی ایک نئی کڑی تھی۔ فوجی حکمراں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی اسلم اظہر کو ملازمت سےبرخاست کر دیا۔ یہ برخاستگی بھی اس صُورت کی گئی کہ پی ٹی وی کو ہر لحاظ سے ایک قابلِ تقلید ادارہ بنانے والے جوہرِ قابل کو پینشن، گریجویٹی اور دیگر استحقاقی فواید تک سے محروم کر دیا گیا۔ 

اقتدار کا مرکز اور اثر و رسوخ کا منبع اسلام آباد، ایک پَل میں اسلم اظہر کے لیے اجنبی بن گیا۔ حکم نامہ جاری ہوا کہ اسلام آباد چھوڑ دیا جائے۔ وہ اس صُورت وہاں سے رخصت ہوئے کہ بس تہی دستی ہی اُن کے شانہ بشانہ تھی۔ کراچی پہنچے تو حال یہ تھا کہ اتنی رقم بھی نہ تھی کہ فوری طور پر کوئی ڈھنگ کا کام کیا جا سکے۔

یہ پی ٹی وی کے لیے مثالی خدمات انجام دینے والے شخص کی حالت تھی۔چند دوستوں کی معاونت سے افرادِ خانہ کے سر چُھپانے کے لیے کسی نہ کسی طرح قیام گاہ کا بندوبست کیا گیا۔اور جب یہ مرحلہ در پیش ہوا تو اسّی کا عشرہ ۔ جب اسلم اظہر نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ’’دستک تھیٹر‘‘کی بنیاد رکھی۔اُن کے انتہائی عزیز دوست، منصور سعید اس کام میں پیش پیش تھے۔ مقصد لوگوں کو معیاری تفریخ فراہم کرنا تھا۔روشن خیال ،پڑھے لکھے، سرکردہ اور پُرجوش اصحاب پر مشتمل یہ تھیٹر اسلم اظہر کی سب سے بڑی ترجیح قرار پا گیا۔ 

یہ اُن کا جنون ہی تھا کہ اُنہوں نے تھیٹر کے لیے ہدایات دینے کے ساتھ اداکاری بھی کی۔1986ء میں ’’پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن ‘‘کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر کراچی میں ’’دستک تھیٹر‘‘ نے سولہویں اور سترہویں صدی سے تعلق رکھنے والے عظیم ماہرِ فلکیات اور ہیئت داں، گلیلیوکی زندگی پر ایک کھیل پیش کیا، جس میںاسلم اظہر کی کردار نگاری اس بلندی پر تھی کہ لوگ بے ساختہ کھڑے ہو کرتالیاں بجانے پر مجبور ہو گئے۔جبر اور گھٹن کی فضا میں انہوں نے مزاحمتی رنگ لیے بہت سے ڈرامے پروڈیوس کیے۔

1988 ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ جنرل ضیاء الحق کی گیارہ برس پر مبنی آمریت کے خلاف سب سے توانا آواز ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی، بے نظیر بھٹو کی تھی۔ہر طرح کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود بے نظیر کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہ تھی، سو قوم نے اُس جرأت آمیز اور بے نظیر جدوجہد کا صلہ یہ دیا کہ اپنے ووٹس کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کروا دیا۔ 

بے نظیر نے پی ٹی وی کے جُملہ اختیارات ایک بار پھر اسلم اظہر کو سونپ دئیے۔ تاہم، مفاہمت، مصالحت اور مجبوریوں میں جکڑی بے نظیر بھٹو کی حکومت چلنے نہ دی گئی اور 1988 ء کے اختتام پر بننے والی حکومت 1990 ء کے درمیانی عرصے میں برطرف کر دی گئی۔حکومت ختم ہوئی تو اسلم اظہر بھی پی ٹی وی سے ایک بار پھر فارغ کر دئیے گئے۔اگلی مصروفیت ایک بڑے نجی اسکول کی ڈائریکٹر شپ تھی۔ 

تاہم، یہ ملازمت بھی یوں طویل وقت تک جاری نہ رہ سکی کہ اسلم اظہر وہاں کی بعض حکمت عملیوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ محسوس نہ کر سکے۔ اس ملازمت کے بعد کا عشرہ اسلم اظہر کے لیے بہت حد تک گوشۂ تنہائی کا رہا۔ وہ خود تو لو گوں سے کم کم ہی ملنے جاتے،لیکن اُن کے چاہنے والے اور پرستار اُن سے ملاقات کے لیے اُن کے پاس آتےجاتے رہتے۔غیر معمولی صلاحیتوں اور گوناگوں خوبیوں کے مُرقّع، اسلم اظہرنے اپنی زندگی میں کسی قسم کے گہرے ملال کو حاوی نہ ہونے دیا۔ 

جب ملازمت میں تھے، تب بھی اور جب ملازمت سے محروم کر دئیے گئے، اُس وقت بھی انہوں نے شکوہ و شکایت کی بہ جائے اپنی صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے اپنی مشغولیت اور مصروفیت کی دنیا آباد رکھی۔انہوں نے خُوب جذبے اور لگن سے کام کیا۔اُن کی وابستگی اوّل و آخر ’’کام‘‘ہی کے ساتھ تھی۔ زندگی بھر کرائے کے مکان میں گزر بسر کرنے والے اسلم اظہر نے اگر کوئی چیز کمائی تو وہ ’’عزّت‘‘ تھی۔ ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزارنے والے اسلم اظہر 29 دسمبر 2015 کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔

اے ڈی اظہر تا اسلم اظہر
اُسامہ اظہر

اسلم اظہر نے دوشادیاں کی تھیں۔ جرمن خاتون سے اُن کی ایک بیٹی، یاسمین ہیں، جو ہیمبرگ،جرمنی میں فرینچ اور انگریزی پڑھاتی ہیں۔ دوسری بیوی، نسرین سماجی طور پر انتہائی متحرک اور فعال رہیں۔’’ایچ آر سی پی‘‘ کی کاؤنسل ممبر ہونے کے علاوہ’’ ویمن ایکشن فورم‘‘ کی فاؤنڈر ممبر بھی رہیں۔اسلم اظہر اور نسرین نے ازداوجی زندگی کے اکیاون برس ساتھ گزارے۔ شوبز کی دنیا میں اُنہیں مثالی جوڑا کہا جاتا تھا۔اُن کی اولاد میں دو بیٹے، اُسامہ اظہر ، اریب اظہر اور ایک بیٹی اُمیمہ اظہر شامل ہیں۔ بڑے بیٹے اُسامہ اظہر، سافٹ ویئر آرکیٹیکٹ ہیں اور آج کل جرمنی میں مقیم ہیں۔ اُسامہ شادی شدہ ہیں، مگر ازدواجی زندگی کام یاب نہ ہوئی اور بیوی سے علیحدگی ہوگئی۔ 

اے ڈی اظہر تا اسلم اظہر
اریب اظہر

اُسامہ کے دو بیٹے فِروین (اسد)اور دانیال(یاسین) زیرِ تعلیم ہیں۔ اریب اظہر پاکستان کی میوزک انڈسٹری کا جانا پہچانا نام ہیں۔ موسیقی گویا اُن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ صوفیانہ گائیکی میں بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ کئی میوزک سیریز بنا چکے ہیں،جن میں تیرہ اقساط پر مبنی ’’Salam Balkan ‘‘اور ’’Indus Blues ‘‘ شامل ہیں۔( آخر الذّکر پاکستان کے مٹتے ہوئے سازوں کے بارے میں ہے۔) اسلام آباد میں ’’میوزک میلہ فیسٹیول‘‘ بھی کیا، جو تین برس جاری رہا۔ 2014ءتا 2016ء جاری رہنے والے اس میلے کو موسیقی سے شغف رکھنے والوں میںبے حد سراہا گیا۔ ’’آرٹ لنگر‘‘ کے عنوان سے بھی ایک میوزک سلسلہ کیا۔

آج کل ’’T2F ‘‘سے بہ طور ڈائریکٹر وابستہ ہیں۔ اریب اظہر غیر شادی شدہ ہیں۔صاحب زادی اُمیمہ اظہرڈاؤن سینڈروم (ایک ذہنی کمزوری)کا شکار ہیں۔ اُمیمہ پورے گھر کی توجّہ کا مرکز ہیں اور اہلِ خانہ اُنہیں ’’گھر کی روشنی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اے ڈی اظہر اور اسلم اظہر کی اپنے ارد گرد پھیلائی جانے والی روشنی رفتہ رفتہ اپنا دائرہ بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ 

تازہ ترین