تحریر: محمد شریف بقا۔۔لندن ہادی اعظم، سرور انبیاء اور بے نظیر محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی ذات مبارکہ بے شمار خوبیوں کی حامل تھی۔ انہوں نے اپنی نبوت ورسالت کی بنا پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں پر بھی بہت سے احسانات کئے ہیں کیونکہ وہ تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیمات اور بہترین سیرت سے لاتعداد انسانوں کی زندگیوں پر دائمی اثرات ڈالے اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ رہتی دنیا تک انسانیت ان کے حیات بخش اثرات اور انقلاب آفرین نظریات کی مدح سرائی کرتی رہے گی۔ وہ کون سا صحیح الدماغ اور نیک فطرت انسان ہے جو ان کے جملہ کمالات کا ثناء خواں نہیں۔ وہ غیرمسلم جو حقیقت پسند، غیرمتعصب اور نیک طینت ہیں وہ چاروناچار حضورﷺ کی عظمت کردار اور ان کی جاذب شخصیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ایسے ہی صداقت کے پرستار لوگوں میں تھامس کارلائل کا نام بھی شامل ہے۔ اس نے کسی قسم کے تعصب اور عام روایتی اسلام دشمنی کے بغیر نبی اکرمﷺ کی سیرت پاک کا بنظر غائر مطالعہ کر کے ان کی عظمت فکر وعمل کا اعتراف کیا اور انہیں اپنا محبوب پیغمبر قرار دیا۔ بلاشبہ وہ ان دیانتدار اور حق گو متشرقین کے گرو ہ سے تعلق رکھتا ہے جس نے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی ذات پر لگائے گئے چند الزامات کی پرزور انداز میں تردید کی۔ تھامس کارلائل کے خراج آمیز 5نظریات سے آگاہ ہونے سے قبل ان کے مختصر سوانح حیات کا جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔ کار لا ئل 4 دسمبر 1795ء کو اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ جیمز کارلائل اگرچہ تعلیم یافتہ نہیں تھا تاہم وہ مذہب کا بڑا معتقد تھا۔ اس کے مذہبی اعتقادات اور اس کی جفاکشی نے بیٹے پر کافی گہرا اثرڈالا۔ تھامس کارلائل نے ایڈنبرا یونیورسٹی سے تعلیم پانے کے بعد ریاضیات کی تدریس شروع کر دی۔ 1920ءکے بعد اس نے مضامین لکھ کر اپنی روزی کمائی۔ 1934ءمیں وہ لندن آکر رہنے لگا۔ مئی 1940ء میں اس نے یہاں چھ لیکچرز دیئے جو بعدازاں 1941ء میں کتابی شکل میں پیش کئے گئے۔ اس کتاب میں رسول کریم ﷺکو اپنا ہیرو قرار دے کر ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ اس کتاب کا نام ہے (On Heroes,Hero - Worship and the Heroic in History)ہےجس لیکچر میں حضورؐ ﷺ کا تذکرہ ہے، اس کا عنوان ہے "Muhammad - The Hero As Prophet"یہاں اس لیکچر کے دو اقتباسات ہدیہ قارین کئے جاتے ہیں۔ کارلائل نے رسول اکرمﷺ کے حالات اور سیرت کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ ’’ان کا گھرانہ سب سے زیادہ کفایت شعار تھا۔ ان کی عام خوراک جو کی روٹی اور پانی پر مشتمل ہوتی تھی۔ بعض اوقات ان کے چولہے میں کئی ماہ تک آگ روشن نہیں ہوتی تھی۔ ان کے سوانح نگاروں کا فخریہ کہنا ہے کہ وہ خود اپنے جوتوں کی مرمت کرتے اور اپنے لبادے میں پیوند لگایا کرتے تھے۔ حضرت محمد ﷺؐ تو غریب محنتی اور بے سازوسامان انسان تھے۔ میری رائے میں اگر وہ اعلیٰ صفات کے مالک نہ ہوتے تو عرب کے وحشی اور ان کے سامنے تیئس سال تک آپس میں لڑنے جھگڑنے والے اورہمیشہ ان سے گہرا ربط رکھنے والے کبھی ان کی اتنی تعظیم نہ کرتے کہ ایسے لوگوں کو کوئی شخص اپنی صحیح قدروقیمت اور مردانگی کے بغیر اپنا مطیع نہیں بنا سکتا تھا۔ کسی شہنشاہ نے اپنے تاج اور شاہی کلاہ کے باوجود اپنی اتنی اطاعت نہیں کروائی جتنی کہ پیوند لگے ہوئے جبہ پوش اس شخص کی ہوتی ہے۔ ان کی تیئس سالہ پُرازمشقت اور حقیقی آزمائشوں میں مجھے تو اپنے لئے حقیقی ہیرو کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔‘‘(ہیروز ، ہیرو ورشپ اور تاریخی بہادر، ص 61لندن 1888ء۔تھامس کارلائل نے رسول اکرمﷺ کی غربت کی طرف یہاں مختصر سا اشارہ کیا ہے جس کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ عام سوانح نگاروں نے رسول مقبولﷺ کی عسرت بھری زندگی کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؓ اور اپنے دادا حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ان کی کفالت ان کے شفیق اورغمگسار چچا حضرت ابوطالب کے سپرد ہوئی تو وہ دور مرفہ الحالی کا مظہر نہیں تھا۔ حضرت ابوطالب کا کنبہ بڑا تھا اس لئے زیادہ خوشحالی تو نہیں تھی مگر یہ ان کی انتہائی عسرت کا بھی زمانہ نہیں تھا۔ آنحضرتﷺ بچپن میں اپنے چچا کی بکریاں چرایا کرتے تھے لیکن بعدازاں ان کا تجارتی سامان لے کر ان کے ساتھ ملک شام اور چند دیگر علاقوں میں بھی گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت ابوطالب کے زیرکفالت آنحضرت ﷺ نے متوسط طبقہ کی زندگی گزاری۔ جب ان کی شادی مکہ کی ایک نیک سیرت اور مالدار بیوہ خاتون حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہوئی تو رسول خدا کو معاشی آسودگی حاصل ہو گئی اس دور کو آنحضرتﷺ کی غربت کا زمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن حکیم نے اس زمانہ خوشحالی کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اور اللہ نے تمہیں محتاج پایا تو بے نیاز کر دیا۔‘‘اس ضمن میں دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ جب خدا کے اس آخری اور پیارے نبیﷺ کو مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کر کے جانا پڑا تو وہ زمانہ سب مسلمانوں کے لئے بے چارگی اور تنگ دستی کا تھا۔ تاہم مدینہ منورہ کے مسلمانوں یعنی انصار کی امداد سے انہوں نے اپنے مالی حالات کو آہستہ آہستہ درست کر لیا۔ آنحضرتﷺ کی کفالت باہمی تعاون پر منحصر تھی۔ اسلامی فتوحات کے بعد ہادی اعظمﷺ کی بارگاہ میں دولت کی فراوانی ہو گئی مگر انہوں نے دیدہ ودانستہ کفایت شعاری ، سادگی اور بے نیازی کی زندگی کو ترجیح دی اور اس استفناء کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے فرمایا الفقر فخری۔ ’’مال ودولت سے میری ذاتی بے نیازی میرے لئے باعث فخر ہے۔‘‘ باغ فدک کا مختصر سا قطعہ زمین خاندان نبوت کے لئے کافی تھا۔ اگر کوئی حاجت مند آجاتا تو آنحضرتﷺ اور ان کے گھر والے خود بھوکا رہتے مگر اس کوخالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے۔ ایسے حالات میں ان کے چولہے کے اندر آگ نہ جلتی تھی۔ فقیری وامیری یعنی فقر وشاہی کا یہ حسین اور بے مثال امتزاج ذات پاکﷺ کا مظہر تھا جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے (فقر وشاہی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ترجمان ہیں یہ ان کی ذات کے دوجلوے ہیں۔) حفیظ جالندھری مرحوم نے بھی کیا خوب کہا ہے ؎ سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی محسن انسانیت حضرت محمدﷺ اپنی صحیح قدروقیمت سے آگاہ تھے۔وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ اللہ کے آخری رسول ہیں اور وہ تمام انسانوں کےمزکی ،معلم، محسن، مبلغ اور غلبہ اسلام کےداعی بھی ہیں۔ وہ اپنے انسانیت ساز، تعمیری، انقلابی اوردائمی پیغام کے ذریعے دنیائے تہذیب و تمدن کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے۔ وہ اپنے زمانے کے حالات سے متاثر ہونے کی بجائے انہیں متاثر کرنے کیلئے مبعوث ہوئے تھے اس لئے ایسی بلند عظیم اور پاکیزہ شخصیت محفل گداز بن کر آئی تھی ۔ وہ لوگوں کی خواہشا ت پر چلنے کی بجائے خدائے تعالیٰ کے احکام پر خود چلنے اور دوسروں کو ان پر عمل پیرا کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ وہ نہ صرف خود خدا کے مطیع وفرمانبردار تھے بلکہ وہ گمراہ اور غلط لوگوں کو بھی خدا کا مطیع بنانے پر مامور کئے گئے تھے جیسا کہ قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’اے نبی ؐ تم کہہ دو کہ جو کچھ مجھ پر وحی کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ (اس کے سوا کوئی نہیں۔ پس کیا تم اس (خدائےواحد) کے احکام کو مانتے ہو یا نہیں؟‘‘ رسول کریم ﷺکو اپنے بلند اور پاکیزہ نصب العین کی صداقت پر ایمان کامل تھا اور انہیں یہ یقین بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ ا ن کے مشن کو ضرور کامیاب کرے گا۔ قرآن مجید میں انہیں اس نصب العین کی کامیابی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ارشاد خداوندی ہے ۔ ’’اے رسولﷺ تم اپنے مؤقف پر ڈٹے رہو اور یقین رکھو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘نبی کامل حضرت محمدﷺ کی ذات بابرکات مجموعہ کمالات اور گنجینہ صفات تھی جس طرح ان کی تعلیمات میں تمام قدیم آسمانی کتابوں اور صحیفوںکی تعلیمات کا نچوڑ شامل ہے اسی طرح تمام انبیائے سابق کی صفات ان کی ذات میں جمع کر دی گئی تھیں اسی لئے ایسی کامل اور عدیم النظیر شخصیت کا محبوب خلائق ہونا ناگزیر ہے۔ ان کے اسمائے گرامی ’’احمد‘‘ (سب سے زیادہ خدا کی حمد بیان کرنے والا) اور ’’محمد‘‘ (سب سے زیادہ تعریف کیا گیا) ہیں اس لئے انہیں ہی مقام محمود کا حامل بنایا گیا ہے ایسی بے نظیر شخصیت سے مسحور اور متاثر ہونے والوں میں لاتعداد غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ اگر کوئی غیرمسلم دانشور تعصب کورانہ اور بغض وعناد سے خالی ہو کر رسول ہاشمیﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرے تو اسے لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ حضرت محمدﷺ دنیا کی عظیم ترین اور کامل ترین شخصیت تھے۔ کارلائل نے بجا طور پر انہیں اپنا ہیرو قرار دیا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے چشمہ فیض سے دنیا اب بھی اپنی تشنگی دور کر رہی ہے اور قیامت تک ان کی رحمت عام ہے تمام انسان اکتساب فیض کرتے رہیں گے شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے؎ ہر کجا بینی جہان رنگ وبو آنکہ از خاکش بروید آرزو یاز نور مصطفیٰﷺ اور را بہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰﷺ ست (اے مخاطب ! جہاںکہیں بھی تجھے کوئی رنگ وبو کی حامل دنیا نظر آئے گی جس کی خاک سے آرزوئیں پیدا ہوتی ہیں تو اس آرزو کی قدروقیمت نور مصطفیٰﷺ کی وجہ سے ہے اگر اسے نور مصطفیٰﷺ نہیں ملا تو وہ چیز ابھی تک اس نور کی تلاش میں ہے۔)