پاکستانی نوجوان منی مجسمہ ساز احسن قیوم نے پینسل سے ایک دوسرے سے جڑی 75 زنجیر کی کڑیاں بنا کر بھارتی لڑکے کا ریکارڈ توڑ کر اپنا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کروالیا۔
پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان احسن قیوم پینسل سے مجسمہ سازی میں مہارت رکھتا ہے۔
اس نے گزشتہ دِنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اِس بات کا اعلان کیا کہ اس کا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوگیا ہے۔
احسن قیوم نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود اپنے ورلڈ ریکارڈ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’اللّہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں یہ ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوا ہوں اور آج میں بہت خوش ہوں۔‘
اُنہوں نے لکھا کہ ’8 ماہ کے طویل انتظار کے بعد اب مجھے گنیز ورلڈ ریکارڈ کے عہدیداروں کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں اُنہوں نے بتایا کہ میرا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کردیا گیا ہے۔‘
احسن نے لکھا کہ ’میں نے ایک بھارتی لڑکے کا ریکارڈ توڑا جس نے مجھ سے قبل پینسل کی نوک سے 58 زنجیروں کی کڑیاں بنائی تھیں‘۔
اُنہوں نے بتایا کہ ’میری 2014 سے خواہش تھی کہ میرا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو، اُسی دوران پنجاب میں یوتھ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پینٹنگ کی مدد سے پاکستان کا سب سے بڑا پرچم بنایا گیا تھا، میری خواہش تھی کہ میں اِس پینٹنگ کا حصہ بنوں لیکن میں اُس وقت ایک جوتوں کی دُکان پر مزدوری کرتا تھا اور میں نے اپنے مالک سے جب فیسٹیول میں جانے کی اجازت مانگی تو اُنہوں نے مجھے اجازت نہیں دی جس پر مجھے بہت دُکھ ہوا۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے خواب کو پُورا کرنے کی کوشش میں لگا رہا اور آج میرا برسوں پُرانا خواب پُورا ہوگیا ہے، اِس کے لیے میں اپنے تمام دوستوں کا شُکر ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میرا ساتھ دیا ۔‘
احسن قیوم نے ’جنگ‘ سے اپنی زندگی پر مبنی بائیو گرافی شیئر کی جس میں اُنہوں نے اپنی زندگی کی تمام جدوجہد کے بارے میں بتایا ۔
احسن قیوم نے اپنی بائیوگرافی میں لکھا کہ ’میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں، جب میں 8 ویں جماعت میں تھا تو میری بڑی بہن کی شادی ہوگئی تھی، میرا خواب تھا کہ میں ایسا کام کروں جس سے میرے والدین کو مجھ پر فخر ہو اور میں اُن کو ایک پُرسکون زندگی فراہم کروں، میں نے اِس کے لیے بہت محنت کی راتوں کو جاگ کر اپنے امتحانات کی تیاری کرتا تھا۔‘
اُنہوں نے لکھا کہ’میری والدہ گُردوں کے مرض میں مبتلا تھیں جس کے باعث میری والدہ کا انتقال ہوگیا تھا، والدہ کے انتقال کے بعد میں اور میرے والد صاحب بہت اکیلے ہوگئے تھے، میرے والد کی نوکری چُھٹ گئی تھی، وہ وقت ہمارے لیے بہت مشکل ترین تھا۔‘
اُنہوں نے لکھا کہ ’اِن بُرے حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے جوتوں کی ایک دُکان پر 7000 روپے مزدوری میں کام کرنا شروع کردیا، میں اور والد ایک ساتھ ایک کمرے کے مکان میں رہتے تھے لیکن ایک دِن میرے والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے میرے والد بھی اِس دُنیا سے رخصت ہوگئے۔‘
اُنہوں نے لکھا کہ ’والدین کے انتقال کے بعد میں بلکل اکیلا ہوگیا تھا اور پھر میں نے خود کو سنبھالا اور اپنے خوابوں کو پُورا کرنے میں لگ گیا، یہ وہ وقت تھا جب میں نے خود کو پہچانا اور گرافکس ڈیزائن کا کورس کرنے کے لیے داخلہ لیا اور وہاں گرافکس سیکھی، اِس کے ساتھ ہی میں نے منی مجسمہ کاری کا کام بھی جاری رکھا اور آج اُسی محنت اور لگن کی بدولت میں نے اپنا خواب پُورا کرلیا۔‘
احسن قیوم نے اپنی بائیوگرافی کے آخر میں سب کو ایک پیغام دیا کہ ہم اپنی تقدیر بدل نہیں سکتےلیکن ہمیں لڑنا چاہیے اورہمیشہ بڑے خواب دیکھنے چاہئیں۔