• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک اس وقت گھمبیر داخلی و خارجی مسائل سے دو چار ہے۔ بیرونی محاذ پر بھارت فالس فلیگ آپریشن کے بہانے کنٹرول لائن پر جارحانہ حملوں کے ذریعے پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذریعے دنیا میں بلیک لسٹ کرا کے اس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے تمام مذموم حربے استعمال کر رہا ہے۔ داخلی محاذ پر حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو آزادی مارچ کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا ہے۔ اب یہ حکومت کی دانشمندانہ حکمت عملی اور سیاسی فہم و فراست کا امتحان ہے کہ وہ ان دونوں چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو ظالمانہ اقدامات کئے ہیں اس پر اسے شدید عالمی مزاحمت کا سامنا ہے۔ دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے آزاد کشمیر میں دہشت گردی کے ٹھکانوں کے حوالے سے وہ بے بنیاد اور جھوٹے دعوے کر رہا ہے۔ ہفتے کی رات اس نے کنٹرول لائن پر جن علاقوں میں نام نہاد لانچنگ پیڈز تباہ کرنے کے دعوے کئے، پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے منگل کو غیر ملکی سفارتکاروں اور میڈیا کے نمائندوں کو ان مقامات پر لے جایا گیا تاکہ وہ بچشم خود اصل صورت حال کا جائز لے سکیں۔ پاکستان نے بھارت سے بھی کہا تھاکہ وہ جن ’’کیمپوں‘‘ کی تباہی کا دعویٰ کرتا ہے ان کی نشاندہی کرے اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دعوت دی تھی کہ وہ خود اپنی پسند کے سفارتی اور صحافتی نمائندوں کو وہاں لے جائیں اور تباہی کے مفروضہ مناظر دکھائیں مگر ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی وہ خود گئے نہ کسی کو لے گئے کیونکہ ان کے پاس ثابت کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ جن سفارت کاروں اور میڈیا کے نمائندوں کو لے گئے تھے انہوں نے تصدیق کی کہ وہاں کسی کیمپ کے آثار تک نہیں ملے۔ بھارت دراصل دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس طرح کے ڈرامے کر رہا ہے جن کے مقابلے کے لئے پاکستان میں مکمل قومی اتحاد و یک جہتی کی ضرورت ہے مگر یہاں حکومت کے خلاف سیاسی تحریک چلائی جا رہی ہے جس سے عوام کے مختلف طبقات کے ذہن منتشر ہیں۔ حکومت نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کی جس کے جواب میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے اہم نکات میں حکومت کی بساط لپیٹنا، وزیراعظم کا استعفیٰ، فوج کی نگرانی کے بغیر فوری انتخابات اور اسلامی قوانین کا نفاذ شامل ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں اس صورت حال پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت کی جانب سے پاکستان میں داخلی انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دیا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ اپوزیشن کا آزادی مارچ روکنے کے لئے حکومت نے پیشگی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ اسلام آباد اور کراچی میں کچھ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ کنٹینروں کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور پنجاب، آزاد کشمیر اور بلوچستان سے پولیس کی اضافی نفری طلب کر لی گئی ہے۔ وزارت داخلہ میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن آزاد مارچ کے لئے جس طرح بے لچک رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اسی طرح حکومت بھی اسے ہر قیمت پر ناکام بنانے کے لئےکمر بستہ ہے۔ دونوں میں مفاہمانہ جذبہ کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ طرز عمل ملک کے مفاد میں نہیں۔ دونوں جانب ایسے لوگ موجود ہیں جو ملکی سلامتی اور داخلی کشیدگی کے موجودہ ماحول پر فکر مند ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی اپنی سیاسی قیادت کو معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر آمادہ کریں۔ سیاسی قائدین بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے معاملات کو محاذ آرائی کی طرف جانے سے روکیں۔

تازہ ترین