ڈاکٹر کو انسانیت کیلئے مسیحا تصور کیا جاتا ہے، مگر جب یہی مسیحا ہڑتالیں اور مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کرتا ہے تو دکھی انسانیت مزید دکھی ہوجاتی ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کی آئی ٹی ایم ایکٹ کیخلاف ہڑتال 13ویں روز میں داخل ہو چکی ہے اور تادمِ تحریر جاری ہے۔ احتجاجی ڈاکٹرز نے لاہور سمیت پنجاب بھر میں اسپتالوں کے باہر اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا جس سے شہری شدید مشکلات کا شکار رہے۔ احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ نجکاری کے فیصلے کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ مظاہرین نے صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کیخلاف نعرے بازی کی اور اُن سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔ وزیرِاعلیٰ کی طرف سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی تاحال احتجاج ختم کروانے میں ناکام ہے۔ اِس ہڑتال کے پیشِ نظر محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن پنجاب نے تین سو مردو خواتین میڈیکل افسر اور دو سو نرسوں اور پیرا میڈیکس کی بھرتی کا فیصلہ کر لیا ہے اور اِس حوالے سے سمری وزیر اعلیٰ کو ارسال کر دی ہے۔ ملک بھر میں آئے روز ایسے احتجاج ہوتے رہتے ہیں جس میں سب سے زیادہ نقصان تیسرے فریق (مریض) کا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور حکومت کی اِس کشاکش میں مریض کا کیا قصور ہے؟ ڈاکٹروں کا حلف کہاں ہے جو وہ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اُٹھاتے ہیں؟ اپنے مطالبات منوانے کیلئے سڑکوں پر نکلنا اور ماردھاڑ کرنا مہذب اقوام کا شیوہ ہے نہ ہی شعبہ طب کے ضابطہ اخلاق کے مطابق۔ حکومت کو بھی عوام کا خیال نہیں ہے اور اِس تمام صورتحال پر میں نہ مانوں کی ضد لگائے خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے جائز مطالبات افہام وتفہیم سے تسلیم کر لیے جائیں اور اسپتالوں میں ادویات، سرجری آلات اور بستروں سمیت ضروری طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998