’’انٹر نیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن‘‘کی جانب سے ہر سال 14نومبر کو’’ذیا بطیس کا عالمی یوم‘‘مختلف تھیمزکے ساتھ منایا جاتا ہے۔ذیابطیس ایک ایسا عارضہ ہے کہ اگر اس کےعلاج معالجے میں معمولی سی بھی کوتاہی برتی جائے، تومرض کے مضر اثرات جسم کے کسی بھی عضو کو متاثر کرسکتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ عوام النّاس میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کے لیےامسال گزشتہ برس کا تھیم ’’ذیابطیس اور اہلِ خانہ‘‘ہی دہرایا گیا ہے۔
صحت کے حوالے سے کہاوتیں مشہور ہیں، ’’صحت سب سے بڑی دولت ہے‘‘اور’’ جان ہے، تو جہان ہے۔‘‘اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر صحت کے ساتھ زندگی ہے، تو سب کچھ ہے اور اگر صحت نہ ہو، تو دولت، جائیداد، رشتے داریاں حتیٰ کہ زندگی کی سب نیرنگیاں بھی بےکار ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کوئی معذوری یابیماری صرف متعلقہ فرد ہی کومتاثرنہیں کرتی، بلکہ اس سے منسلک افراد اور اہلِ خانہ بھی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ گھر کاکوئی ایک فرد بیمار ہو، تو پورا خاندان پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ گمبھیرتا تب اور بڑھ جاتی ہے، جب مرض سنگین ہو۔
کچھ عوارض انفرادی، وقتی و عارضی ہوتے ہیں، جن کے مُضرّات و اثرات بھی محدود ہوتے ہیں اور تقریباً ہربندۂ بشر اپنے دورانِ حیات میں کبھی نہ کبھی ان سے متاثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ نزلہ زکام، موسمی بخار اور اسہال وغیرہ۔جب کہ دوسری طرف ایسے امراض بھی ہیں، جن کے انسانی صحت و بقا پر تباہ کُن اثرات مرتّب ہوتے ہیں،جو دیرپا یااور بعض اوقات دائمی بھی ہوسکتے ہیں،جن کے نتیجے میںمتاثرہ فرد کے ساتھ اہلِ خانہ، عزیز و اقارب بھی ذہنی کرب اور جسمانی و معاشی طور پر اذّیت کا شکار ہوجاتے ہیں،جب کہ بعض اوقات زیرِکفالت افرادتک زبوں حالی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
’’مَرے کو ماریں شاہ مدار‘‘ کے مصداق ایسے عوارض صرف فردِ واحد یا افراد کی مختصر تعداد ہی کو متاثر نہیں کرتے، بلکہ وبا کی صورت پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ پھر ان کی سنگینی صرف ایک کنبے یا خاندان تک محدود نہیں رہتی۔ ہم جیسے محدود وسائل والے ترقّی پذیر مُمالک میں ایسے عوارض معاشی طور پر انتہائی گراں بار ثابت ہوتے ہیں،جن سے نہ صرف مُلک کی اقتصادی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے، بلکہ علاج معالجے کا مربوط فلاحی نظام نہ ہونے کے سبب اکثر مریض یا اس کے لواحقین ہی کو اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور اگر مرض شدید ہو، ساتھ مسائل اور پیچیدگیاں بھی لاحق ہوں، تو یہ خرچے ہوش رُبا اور اکثر متاثرہ فرد اور اہلِ خانہ کی استطاعت سے باہر ہوجاتے ہیں۔
ذیا بطیس بھی ایسا ہی ایک عارضہ ہے، جو دُنیا بَھر، بشمول پاکستان میں کسی وبا کی طرح پھیل چُکا ہے۔دُنیا بَھر میں ذیا بطیس کے مریضوں کی تعداد، جو 1980ء میں دس کروڑ اسّی لاکھ تھی،2014ء میں بڑھ کر بیالیس کروڑ بیس لاکھ ہوگئی۔ 1980ءمیں اٹھارہ سال سے زائدعُمر کے افراد میں اس کی شرح 4.7فی صد تھی، 2014ء میں8.5فی صدہوئی اور2017ء میں 8.8فی صد۔جب کہ 2045 میں یہ شرح 9.9فی صد تک ہو جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ 50فی صد افراد جن کو یہ مرض لاحق ہوتاہے، اُن میں تشخیص ہی نہیں ہوپاتی ،خاص طور پر ترقّی پذیر مُمالک میں۔
’’انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن‘‘کے مطابق1980ء میں مَردوں میں ذیا بطیس کی شرح 4.3فی صد تھی، جو 2014ء میں بڑھ کر 9.0فی صد ہوگئی اور اسی عرصے میں خواتین میں یہ شرح 5.1فی صد سے بڑھ کر 7.9فی صد ہوگئی۔ ذیابطیس میں اضافے کی شرح اوسط اور کم آمدنی والے مُمالک ، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، زیادہ بُلند ہے۔اسی لیے یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ 2040ء میں اس عارضے میں مبتلا 80فی صد افراد کا تعلق ترقّی پذیر مُمالک سے ہوگا۔
ذیابطیس کی شرح میں اس اضافے کی وجوہ میں بڑھتی ہوئی آبادی،ضعیف العُمری، شہری طرزِزندگی ،ورزش سے گریز، سہل پسندی اور وزن میں اضافہ یعنی موٹاپا وغیرہ شامل ہیں۔انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن کے2017ء کے اٹلس کے مطابق پاکستان میں ذیابطیس میں مبتلا افراد کی تعداد 76لاکھ اور آبادی میں اس کی شرح 6.56فی صد ہے، جب کہ 2025ء تک یہ تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہوجائے گی۔ اس اعتبار سے دُنیا بَھر میں پاکستان کا شمارپانچویں نمبر پر ہوگا۔نیز،نیشنل ڈائی بیٹیک سروے(2016-17ء )میں بھی،جو ایک معروف مقامی طبّی ادارے کی جانب سے کروایا گیا، اُس سے ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے۔
سروے کے مطابق پاکستان میں ذیابطیس کی شرح 26.3فی صد ہے۔شہروں میں یہ شرح 28.3فی صداور دیہی علاقوں میں25.3فی صد ہے،جب کہ14.4فی صد افراد ذیابطیس ہونے سے پہلے والی کیفیت میں،جوPRE-DIABETESکہلاتی ہے، مبتلا ہیں۔ اسی طرح پاکستان ڈائی بیٹیزپِری ویلینس سروے کے مطابق پاکستان میں بالخصوص ذیابطیس ٹائپ ٹوکے پھیلاؤ کی شرح 16.95فی صد،جب کہ پِری ڈائی بیٹیز کی10.9فی صد ہے۔
بہرکیف، اعداد وشمار جو بھی ہوں،مگر یہ حقیقت ہے کہ ذیابطیس اب پاکستان میں وبائی صُورت اختیار کرچُکی ہے۔ انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر سات سیکنڈ بعد کسی نہ کسی فرد کی موت ذیابطیس یا اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہورہی ہے۔ ان میں سے پچاس فی صد اموات(سالانہ چار ملین ) ساٹھ سال سے کم عُمر افراد میں ہوتی ہیں۔
2016ء میں 1.6ملین اموات براہِ راست ذیابطیس کی وجہ سے ہوئیں،جب کہ 2.2ملین افراداس مرض کی پیچیدگیوں کی وجہ سے دُنیا سے کُوچ کرگئے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بھر میں مجموعی طور پر ذیابطیس اموات کی ساتویں،جب کہ خواتین میں اموات کی نویں سب سے بڑی وجہ ہے۔جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہر سال تقریباً 2.1ملین خواتین صرف ذیا بطیس کا شکار ہوکر انتقال کرجاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر ماہ تقریباً 82,000خواتین ذیابطیس یا اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے لقمۂ اجل بنتی ہیں۔واضح رہے کہ ذیابطیس کے باعث اموات کی شرح مَردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ بُلند ہے،کیوں کہ مَردوں میں سالانہ شرحِ ہلاکت تقریباً 36,000ہے۔
ذیابطیس کے مضراثرات اور پیچیدگیوں کا ذکر کیا جائے، تو اگر خون میں شکر کی مقدار متوازن نہ رہے،مرض کا دورانیہ طویل، تمباکو نوشی کی عادت ، سہل پسندی مزاج کا حصّہ ہواور ورزش کا بھی فقدان پایا جائے، تو متاثرہ فرد کئی عوارض اور پیچیدگیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے، جو اس کے وجود کو سَر سے پیر تک متاثر کر سکتی ہیں، جن میں سے چیدہ چیدہ یہ ہیں۔
قلب،شریانوں کے امراض اور فالج:ذیابطیس میں مبتلا افراد میں دِل کے امراض،دِل کا دورہ اور فالج اموات کی بڑی وجوہ ہیں،خاص طور پر اگر خاندان میں کسی کو دِل کا دورہ پچاس سال سے کم عُمر میں پڑا ہو، تو عارضۂ قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابطیس سے متاثرہ مریضوں میں امراضِ قلب اور فالج کے امکانات عام افراد کے مقابلے میں دو گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایک فرد جو ذیابطیس کا شکار نہ ہو اور اسے دِل کا دورہ پڑچُکا ہو، تواُس میں دوبارہ ہارٹ اٹیک کے جتنےامکانات پائے جاتے ہیں، ذیابطیس سے متاثرہ فردمیں بھی اُسی قدر پائے جاتے ہیں۔
اس لیے ذیابطیس کو"Cardiac Risk Factor"بھی کہا جاتا ہے۔ پھر بعض عوامل بھی مثلاًتمباکو نوشی، خون میں چکنائی کی زیادتی، موٹاپا، خون میں شکر کا خراب تناسب اور مرض کا طویل دورانیہ بھی قلب اور شریانوں کے امراض اور فالج کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ عموماًفالج کا حملہ اور ہارٹ اٹیک بغیر کسی پیشگی علامت اور تکلیف کے ہوتا ہے،لہٰذا معالج، افرادِخانہ اور متعلقہ فرد کو خاص طور پر محتاط رہنا چاہیے اور ذراسا بھی خدشہ یا شک ہو، تو فوراً معالج سے رجوع کیا جائے۔بہتر تو یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً معالج سے معائنہ کروایا جاتا رہے۔
گُردوں کے مسائل:ذیابطیس ٹائپ وَن جو نسبتاً کم افراد کو متاثرکرتی ہے، اس میں مبتلا تقریباً تمام افراد میں گُردوں کے کچھ نہ کچھ مسائل مرض کی تشخیص کے دو سے پانچ سال کے دوران ظاہرہوجاتےہیں، پھر تقریباً 30 سے 40 فی صد مریضوں میں 10سے30 سال میں سنگین قسم کے گُردے کے عوارض لاحق ہو سکتے ہیں۔
ذیا بطیس ٹائپ ٹو جو زیادہ مروّجہ قسم ہے، اس میں ابتدائی دس سالوں میں شاذو نادر ہی گُردے متاثر ہوتے ہیں، لیکن اگر احتیاط نہ برتی جائے، تو بالعموم پندرہ سے پچیس سال کی مدّت میں گُردے متاثر ہونے لگتے ہیں۔گُردوں کا مستقل عارضہ، جسے کرونک کڈنی ڈیزیز(سی کے ڈی) کہا جاتا ہے، اس کی شرح دُنیا بَھر میں13.4فی صد ہے۔ایک سروے کے مطابق عام آبادی میں سی کے ڈی کی شرح 10.1فی صد، بُلند فشارِخون سے متاثرہ افراد میں24.7فی صد،جب کہ ذیابطیس کے مریضوں میں 16.6فی صدہوتی ہے۔
دُنیا بَھرخصوصاً غریب یا اوسط آمدنی والے مُمالک میں ذیابطیس کی وجہ سے گُردوں کے عوارض کی شرح میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک مقامی تجزیےکے مطابق پاکستان میں گُردوں کے مسائل ذیابطیس کےشکار 20.2فی صدمریضوں میں پائے گئے۔ان مریضوں میں خون میں شکر کی مقدار متوازن نہیں تھی اور پچھلے تین ماہ میں اُن کے خون میں شکر کا اوسط ،جسے طبّی اصطلاح میں"hba1c"کہتے ہیں، 800فی صد سے زائد تھا۔نیز، وزن، مرض کا دورانیہ اور بُلند فشار خون بھی زیادہ تھا۔
ایک اور تجزیےکے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً بیس ہزار مریضوں کے گُردے ناکارہ ہو جاتے ہیں، جسے طبّی اصطلاح میںESRD:End-Stage Renal Diseaseکہا جاتا ہے۔ ان مریضوں کاڈائی لیسز کیا جاتا ہے اوران افراد میں سے 40 سے 50مریضوں میں گُردے ناکارہ ہونے کی وجہ صرف ذیابطیس ہی ہوتی ہے۔
امراضِ چشم:ایک رپورٹ کے مطابق ذیابطیس میں مبتلا افراد میں عالمی سطح پر ضعفِ چشم کی شرح 34.6فی صدپائی جاتی ہے، جب کہ ہمارے یہاں یہ شرح 28.7فی صدہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میںمجموعی طور پر آنکھوں کے متاثر ہونے کی شرح 43فی صد ہے،جب کہ ذیابطیس کے شکار افراد میں آنکھوں کے مسائل سب سے زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں اور بالغ افراد میں بینائی کے زیاں کی بڑی وجہ بھی یہی مرض ہے۔
پیروں کے مسائل:ذیا بطیس کے مریضوں میں پیروں کے مسائل کے امکانات 15سے25فی صد پائے جاتے ہیں ۔ دُنیا بَھر میں ہر تین سکینڈ بعد کوئی نہ کوئی فرد اس عارضے کی وجہ سے اپنے پیروں سے محروم ہو رہا ہے۔ مقامی تجزیوں کے مطابق ذیا بطیس کلینک جانے والے افراد میں سے4سے10فی صد افراد پیروں کے مسائل میں مبتلا ہو تے ہیں۔حالاں کہ تھوڑی سی احتیاط برت کر49سے85فی صد پیروں کے مسائل، زخم اور ان کے کٹنے کے امکانات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
زچّہ و بچّہ کے مسائل:تقریباً ہر سات میں سے ایک بچّے کی پیدایش دورانِ حمل ذیابطیس سے متاثر ہوتی ہے۔حمل کے ابتدائی13 ہفتوں کے دوران اگرحاملہ کے خون میں شکر کی مقدار متوازن نہ رہے، تو شکمِ مادر میں پلنے والا بچّہ پیدایشی نقائص کے ساتھ جنم لیتاہے۔
نیز،بعض کیسز میںحمل ضایع بھی ہوجاتا ہے ،تو کبھی زچہ وبچّہ کی پیچیدگیاں، دورانِ زچگی مسائل کا باعث بن جاتی ہیں۔بچّے کے دِل، دماغ اور شریانوں میں کوئی نقص ہوسکتا ہے، گُردے، مثانے، نظامِ ہضم متاثر ہوسکتا ہے، جو بعد میں والدین کے لیے سوہان روح اور بچّے کے لیے محتاجی کا باعث بن سکتاہے،لہٰذا تمام خواتین حمل قرار پانے سے قبل گائناکالوجسٹ کے علاوہ ماہرِامراضِ ذیابطیس سے بھی ضرور مشورہ کریں۔ اس کے علاوہ ذیا بطیس کے سبب اعصابی رگیں متاثر ، پیرسُن، قوّتِ سماعت متاثر ہونے،قبض،اسہال، نظامِ ہضم کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل لاحق ہونے، دانتوں کی تکالیف، الزائمر، دماغی اور دیگر مسائل بھی پیداہو سکتے ہیں۔
ذیابطیس ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں روزمرّہ کے معمولات میں مستقلاً تبدیلی لانے،خون میں شکر کی پابندی سے جانچ پڑتال اورصحت کی عمومی نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ا س حوالے سے صرف مریض ہی نہیں، بلکہ افرادِ خانہ کو بھی معلومات ہونی چاہئیں۔ مثلاًگھر کے کسی فرد کو خون میں شکر کی مقدارجانچنے کے بارے میں معلوم ہو۔ خاص طور پر اگر مریض ضعیف ہو یااُس کی بینائی کم زور ہو، تو گھر کے کسی فردکو اُس کی مدد کرنی چاہیے۔
گھر کےتمام افراد متوازن، صحت بخش غذا استعمال کریں، تاکہ متاثرہ فرد کی بھی ذہنی و نفسیاتی طور پر حوصلہ افزائی ہو۔مریض کے ساتھ ورزش کریں، البتہ ورزش کے طریقوں کےبارے میں پہلے اپنے طبّی ماہر سے مشورہ کرلیا جائے،تو بہتر ہوگا۔ اہلِ خانہ کو اس بارے میں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں یعنی کبھی خون میں شکر کی مقدار بہت کم، یا بہت زیادہ ہوجائے، فوری طور پر کیا کرنا چاہیے۔ پیروں کی حفاظت کے لیے کیا احتیاط برتی جائے۔
اگر مریض کی بصارت کم زورہو یا عُمر رسیدہ ہو، تو گھر کے کسی فرد کو پیروں کا معائنہ کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔پھرسالانہ تفصیلی معائنے یا ضرورت کے تحت طبّی مشورے کے بارے میں بھی افرادِ خانہ کو علم ہونا چاہیے۔
نیز، جب معالج یا ماہرِاغذیہ سے مشورہ کیا جائے، تو کوئی عزیز ، رشتے دارلازماً ساتھ ہو۔آخر میں یہ بات ملحوظ نظر رکھی جائے کہ مناسب احتیاط و خیال سے اس عارضےکے ساتھ بَھرپور زندگی گزاری جا سکتی ہے، جیسا کہ لاکھوں، کروڑوں افراد گزار رہے ہیں۔ اس ضمن میں افرادِ خانہ بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ مریض اپنی ادویہ پابندی سے استعمال کریں ۔
اگر انسولیں کی ضرورت ہے، تو اس کےاستعمال میں تاخیر نہ ہونے دیں کہ یہ تاخیر جان لیواپیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔مریض خود بھی پابندی سے خون میں شکر کی جانچ کریں اورمعالج کے مشورے کے مطابق خون میں شکر کی مقدار مناسب حد میں رکھیں۔ خالی پیٹ نہ رہیں، متوازن غذا استعمال کریں۔خون میں چکنائی کی مقدار اور بُلند فشارِ خون قابو میں رکھیں۔تمباکو نوشی سے اجتناب برتیں، پیروں کی نگہداشت کریں،جب کہ سال میں ایک بار اپنا تفصیلی معائنہ ضرور کروائیں، جس میں دِل کے افعال، گُردوں، آنکھوں، پیروں وغیرہ کا معائنہ بھی شامل ہے۔
(مضمون نگار، معروف فزیشن، ماہرِامراضِ ذیابطیس ہیں۔ اور حنیف اسپتال اور الحمرا میڈیکل سینٹر، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)