• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کی صحت کارڈ اسکیم اگرچہ ایسی پہل کاری ہے جس سے مستقبل میں مؤثر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے تاہم صحتِ عامہ کا شعبہ مجموعی طور پر خاص توجہ کا طالب نظر آرہا ہے۔ ڈینگی بخار نے جمعرات کے روز بھی کراچی میں دو بچوں کی جان لے لی جس کے بعد رواں برس ملک میں ڈینگی سے ہلاکتوں کی تعداد70 ہو گئی۔ ملک بھر میں 45ہزار سے زائد افراد مچھروں کے شکار ہوئے جبکہ صرف کراچی میں 10ہزار 60افراد کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ کتے کے کاٹے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد صرف صوبہ سندھ میں (ایک اور بچے کے دم توڑنے کے بعد) 21ہو چکی ہے۔ کراچی سے 150کلو میٹر دور گائوں خاں محمد خاصخیلی میں تیز بخار کی وبا پھیلنے اور اس سے تین بچوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ایک تشویشناک اطلاع چند دن قبل ان امراض کے دوبارہ سر اٹھانے کی ہے جن پر عرصہ دراز تک بچپن کے حفاظتی ٹیکے لگائے جانے کے باعث قابو پایا جا چکا تھا۔ ملیریا، تشنج، کالی کھانسی اور ٹائیفائید کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد جتنا ان پر قابو پانے کی تدابیر ضروری ہیں اتنا ہی کراچی سمیت مختلف شہروں میں کچرے کے ڈھیروں، سڑکوں پر اور گلیوں میں بہتے سیوریج کے پانی کی صورتحال پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ وفاقی، صوبائی، ضلعی اور شہری سطحوں پر اس صورتحال سے نمٹنے کی تدابیر کی تو جارہی ہیں مگر انہیں زیادہ مؤثر بنانے کے لئے مربوط کوششوں کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ینگ ڈاکٹروں کی دو عشروں سے وقتاً فوقتاً ہونے والی ہڑتالوں کے باعث عام آدمی کے لئے سرکاری اسپتال کی ناکافی کہی جانے والی سہولتیں عملاً غیر یقینی ہو گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام امور کے مختلف پہلو سامنے رکھتے ہوئے ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ سمیت مختصر مدتی، وسط مدنی اور طویل المیعاد حکمت عملی بروئے کار لائی جائے۔

تازہ ترین