• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتے کے روز ایک طرف پاکستان بابا گرو نانک دیوجی کے 550ویں جنم دن پر سکھوں کیلئے کرتارپور راہداری کھول کر مذہبی رواداری کا پیغام دے رہا تھا تو دوسری طرف بھارت 16ویں صدی کی تاریخی بابری مسجد، جسے 1992میں انتہا پسند سنگھ پریوار کے غنڈوں نے سرکاری سرپرستی میں حملہ کر کے ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا تھا، کی جگہ مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کر کے بدترین قسم کی مذہبی منافرت کو ہوا دے رہا تھا۔ کرتارپور سکھوں کے لئے وہی مقام رکھتا ہے جو مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ کیونکہ یہاں ان کی عبادت گاہ گوردوارہ دربار صاحب واقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے حکم پر پاکستان کی انتظامیہ نے کرتارپور سے جڑے منصوبوں کو 10ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کرکے دنیا بھر خصوصاً مشرقی پنجاب اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے چودہ کروڑ سکھوں کو اپنے مقدس مقام کی زیارت کے لئے آنے کی سہولت فراہم کردی ہے جس کا افتتاح وزیراعظم نے 9نومبر کو کیا اور کہا کہ یہ سکھوں کے لئے پاکستان کا تحفہ ہے۔ کرتارپور آنے والے سکھوں کے پہلے دستے کی قیادت سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کی جبکہ افتتاحی تقریب میں پاکستانی رہنمائوں کے علاوہ مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ، سابق بھارتی کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اور اداکار سنی دیول نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے دونوں ملکوں سے اصل مسئلہ یعنی غربت کے خاتمے کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ اس مسئلے کے تصفیے سے خطے میں امن اور خوشحالی آئے گی۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنے پیغام میں کرتارپور راہداری جلد مکمل کرنے پر عمران خان کا شکریہ ادا کیا جبکہ نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ ہماری چار نسلیں کرتارپور آنے کے لئے ترستی رہیں، عمران خان نے اس کا بندوبست کر کے سکھوں کے دل جیت لئے ہیں۔ امریکہ نے راہداری کی تعمیر کو مثبت فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس سے پاکستان اور بھارت میں مذہبی آزادیوں کو فروغ ملے گا لیکن عین اسی موقع پر بھارتی سپریم کورٹ نے انتہا پسند ہندوئوں اور حکمران جنتا پارٹی کے زیرِ اثر تاریخی بابری مسجد کے 27سال سے زیرِ سماعت مقدمے کا متعصبانہ فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے جہاں انصاف کا خون کیا وہاں مذہبی رواداری کی بھی دھجیاں اڑا دیں۔ عدالت نے سیکڑوں ایکڑ اراضی پر محیط تاریخی مسجد کے بدلے نئی مسجد کی تعمیر کیلئے اسی علاقے میں 5ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا جسے مسلم تنظیموں نے ’’خیرات‘‘ قرار دے کر مسترد کردیا ہے اور فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کا موقف ہے کہ اس مسجد کے نیچے مندر تھا جہاں بھگوان رام نے جنم لیا تھا۔ عدالت نے اس دعوےکے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ اور سنی وقف بورڈ کے پیش کردہ تمام مبنی بر حقیقت شواہد کو نظر انداز کردیا مگر یہ ثبوت فراہم نہیں کیا کہ 1528میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ اس فیصلے سے جہاں گاندھی اور نہرو کے سیکولر بھارت کا جنازہ نکل گیا ہے وہاں ملک بھر خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ہندو مسلم فسادات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جس پر ’’قابو‘‘ پانے کیلئے سیکورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کرکے حساس مقامات پر ان کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔ مبصرین نے بھارتی عدالت کے فیصلے کو ’’ہندو توا‘‘ کے فلسفے کی فتح قرار دیا ہے جس کے تحت بھارت میں صرف ہندوئوں کو رہنے کا حق ہے۔ اس سے اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کی جان و مال کے لئے سنگین خطرات پیدا ہو گئے ہیں جن کا عالمی برادری کو فوری نوٹس لینا ہوگا۔

تازہ ترین