• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہبی امور اور بین المذاہب رواداری کی دعوت پر دربار صاحب کرتارپور کوریڈور کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں سیکورٹی کا سخت اہتمام تھا۔

سکھ بھائیوں کا یہ دوسرا مقدس ترین مقام ہے جس پر گزشتہ دو دہائیوں میں درویش اَن گنت مرتبہ حاضری دے چکا ہے، جب نئی تعمیرات کا آغاز ہوا تب بھی یہ شرف حاصل ہوا مگر آج تو یوں لگا جیسے یہاں کی ہر چیز ہی بدل گئی ہے۔ بابا گرو نانک کا قدیمی کنواں جسے وہ اپنی کھیتی باڑی میں آبپاشی کے لیے استعمال کرتے تھے،

پچھلی یاترا میں وہ اپنی پُرانی حالت میں موجود تھا جبکہ اس مرتبہ بابا جی کا کھوہ بھی ماڈرن ہو چکا تھا جس کا پانی دنیا بھر سے آئی ہوئی سکھ کمیونٹی کے لیے آبِ زم زم کی طرح تھا۔اصل دربار صاحب کے گرد نئی تعمیرات کی وسعت اور پھیلاؤ نے من موہ لیا۔

سردار رامیش سنگھ اروڑا جی سے قدیمی دوستی ہے، بڑے تپاک سے ملے، وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے ڈپلومیٹس کو انگریزی میں گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور کی ہسٹری اور بابا جی کی یہاں گزری زندگی کی یادیں سلیقے سے سنا اور بتا رہے تھے۔ درویش کے اس سوال پر کہ سردار جی وہ بابا جی کی سبزیوں والا علاقہ اور پھل دار پودوں والا وسیع باغ کہاں چلا گیا؟ بولے ’’وہ فیز ٹو میں شروع ہونے کو ہے‘‘۔

علاوہ ازیں نئی تعمیرات میں جو جو کوتاہیاں محسوس کیں وہ سب اُن کے گوش گزار کیں تو بولے آپ یہ سب باتیں نوٹ کرواتے جائیں تاکہ شتابی میں جو چیزیں نظر انداز ہوئی ہیں، اُن کا مداوا کیا جا سکے۔ بہرحال یہاں اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ سنگتوں سے تبادلہ خیال کے مواقع میسر آئے بالخصوص غیر ملکی سکھ میڈیا والوں نے مختلف لمحات و خیالات کی ارمغانِ کرتارپور سمجھتے ہوئے ریکارڈنگ کی۔ ان میں ہر سوچ کے سکھ سنگت موجود تھے۔

وہ بھی تھے جو درویش کی طرح بابا جی اور ان کی تعلیمات کو ہندو مسلم ایکتا کے لیے بطور ایک پل خیال کرتے ہیں اور ایسے بھی تھے جو خالصتانی سوچ کے زیرِ اثر تھے۔ بظاہر تو کرتارپور کوریڈور کھلنے کی تمام تر اُٹھان محبت کا پرچار و امن کا پیغام ہے لیکن آنے والے دنوں میں شاید کچھ پوشیدہ حقائق بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

اس سوچ کے علی الرغم کہ کس کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا اس اظہار میں کوئی حجاب نہیں کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان کی سکھ کمیونٹی میں مقبولیت اس وقت بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

لوگ یہ سوال پوچھتے پائے گئے کہ پوری سات دہائیوں پر محیط بندشوں میں جبکہ یہاں جمہوری حکومتیں بھی رہیں، یہ عظیم خواب کیوں اپنی تعبیر نہ پا سکا؟ کون پیہم اس کے آڑے آیا رہا؟ دلچسپ امر یہ تھا کہ یاتریوں میں ہندو کمیونٹی کی بھی کمی نہ تھی، کئی لوگ خود کو بیک وقت ہندو اور سکھ کہلوانے میں امتیاز نہیں کرتے۔

افتتاحی تقریب میں انڈین کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کی تقریر گویا اس مبارک دن کا حاصل تھی جس نے سکھ کمیونٹی کے ساتھ کئی ڈپلومیٹس کی آنکھیں بھی پرُ نم کر دیں، بولے کہ سکھوں کی چار نسلیں کرتارپور دربار صاحب آنے کے لیے ترستی رہیں، میرا تایا چار میل کے فاصلے پر کھڑا دربار صاحب کی طرف دیکھتا اور روتا، وہ وہیں کھڑے اس مٹی کو چومتا مر گیا، میرا باپ اور دادا یہاں آنے کے لیے ترستے رہے،

یہ کیسی بندش تھی کہ پوری سکھ قوم چار میل دور کھڑی رہتی مگر اپنے بابے کے گھر نہیں آسکتی تھی لیکن آج عمران نے مقدر کا سکندر بن کر ہمارے دلوں کو فتح کر لیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ مجھے تو کرتارپور کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا مجھے سال پہلے پتا چلا اس کی اہمیت کا، یہ ایسے ہے جیسے ہم مدینہ کو چار پانچ کلومیٹر دور سے دیکھیں مگر وہاں جا نہ سکیں۔وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو نفرت پھیلانے کے بجائے لوگوں کو متحد کرے۔

انہوں نے نیلسن مینڈیلا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 27سال جیل میں گزارنے کے باوجود انہوں نے اپنے مخالفین کو معاف کر دیا، نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے قوم کو متحد کیا۔ پیغمبر ِ اسلامﷺنے بھی دشمنوں کو معاف کرتے ہوئے محبت سے اپنا پیغام پھیلایا۔

نریندر مودی کو بھی چاہئے کہ وہ بھی کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے ہماری طرف محبت کا پیغام بھیجیں۔اس موقع پر وزیرِ خارجہ نے کرتارپور بارڈر کے دوسری طرف ڈیرہ بابا نانک میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی چند گھنٹے قبل کی گئی تقریر کا حوالہ دیا جس میں مودی جی نے کرتارپور راہداری کھولنے پر پاکستانی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عمران خان نے بھارت کے جذبات کو سمجھا ہے، اب کرتار پور گرودوارے کی زیارت آسان ہو جائے گی۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ مودی جی سرینگر کی مسجد کھول کر آپ ہمیں بھی شکریہ کا موقع دیں۔

تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ تمام مہمانانِ خصوصی نے بھی گورودوارے کی زمین پر بیٹھ کر تقاریر سنیں جن میں بھارت سے آئے ہوئے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نمایاں ترین تھے۔

سدھو کی تقریر کے دوران عمران خان بار بار سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُن کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ درویش کو سدھو کی جو بات حیران کن لگی وہ ان کا سکھ کمیونٹی کے لیے بار بار 14کروڑ کا فگر تھا جبکہ ناچیز کے ذہن میں سکھوں کی تعداد تین کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔

اس کی تصحیح ہونی چاہئے نیز سدھو کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جناب عمران خاں کے علاوہ پاکستان کی جمہوری حکومتیں چاہے وہ محترمہ بے نظیر کی ہو یا نواز شریف کی، کرتارپور کوریڈور کھولنے کے لیے بےچین رہیں، اس کے منصوبے بھی بنتے رہے اگر یہ مبارک اقدام پہلے نہیں اٹھایا جا سکا تو اس کی وجوہ کچھ اور تھیں۔

تازہ ترین