• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریحام نے ہتک عزت مقدمہ جیت لیا،چینل کی جانب سے ہرجانہ اور معافی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ/ سعید نیازی) براڈ کاسٹر اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے ہتک عزت کے بدلے خاصی رقم اور ایک پاکستانی نجی ٹیلی ویژن سے سرعام معافی کا کیس جیت لیا ہے۔ اس ٹی وی چینل نے5جون2018ء میں ریلوے منسٹر شیخ رشید کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو نشر کیا تھا۔ شیخ رشید نے ریحام خان پر الزام لگایا تھا کہ اس نے شہبازشریف سے پیسے لیے ہیں۔ ریحام خان نکے وکیل ہیملنز ایل یل پی کے ایلیکس کوچرین نے رائل کورٹس آف جسٹس لندن ہائی کورٹ میں مسٹر جسٹس نکلن کو بتایا کہ براڈ کاسٹ میں ریحام خان پر متعدد سنگین الزامات لگائے گئے جو کہ سراسر غلط تھے، جن میں عمران کے خلاف ان کے مسلم لیگی حریف شہبازشریف سے سازباز کی اور اپنی آپ بیتی لکھنے کے عوض شہبازشریف سے اچھی خاصی رقم وصول کی، وکیل ایلیکس کوچرین نے عدالت کو مزید بتایا کہ شیخ رشید نے میری کلائنٹ کو پراسٹیٹیوٹ سے بھی زیادہ برے کردار کی عورت کہا۔ اس الزام کی وجہ سے میری کلائنٹ کو اور ان کی فیملی کو شدید اذیت پہنچی اور ان کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا۔ نجی ٹی وی نے عدالت کو بتایا کہ ان الزامات بلکہ وہ تمام الزامات جن کی شکایت کی گئی ہے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ریحام خان پر اپنی کتاب لکھنے کے عوض پیسے حاصل کرنے کا الزام دیگر جن میں حمزہ عباسی، فواد چوہدری، فیاض حسین چوہان، سلمان احمد نے بھی جون2018ء میں ٹی وی پر بیٹھ کر لگایا تھا۔ ریحام خان کے وکیل ہیملنز ایل ایل پی کے ایلیکس کوچرین نے کہا کہ ٹی وی پروگرام نے میری کلائینٹ کے بارے میں سنگین الزامات لگائے جو قطعی طور پر غلط تھے، ریحام خان کے پاس عدالت جانے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا مجھے خوشی ہے کہ چینل نے لندن ہائی کورٹ میں مکمل اور غیر مبہم معافی مانگ لی ہے۔ چینل نے انہیں اچھی خاصی رقم بھی ادا کردی ہے۔ ریحام خان کو خوشی ہوئی ہےکہ معافی مانگی گئی اور کیس کا فیصلہ ان کے حق میں آیا، اس موقع پر ریحام خان کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آخرکار انصاف کا بول بالا ہوا مجھے اپنی معصومیت ثابت کرنے اور یہ بتانے کیلیے کہ مجھے انتقام کا نشانہ بنایا گیا، کافی عرصہ لگ گیا، دیگر چینلز کی جانب سے بھی میری ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا، میں نے شہباز شریف سے کتاب لکھنے کیلیے کبھی پیسے نہیں لیے، یہ امر تکلیف دہ ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والا میڈیا اور سیاستدانوں نے میرے اوپر جھوٹے الزامات لگائے، ان الزامات کی وجہ سے میری زندگی خطرے میں رہی، یہ جیت ان پاکستانی خواتین کی جیت ہے جنہیں مردوں کے معاشرے میں کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ریحام خان اور ان کی لیگل ٹیم نے رقم کی مقدار ظاہر نہیں کی۔ یوکے کی عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے کا ٹرینڈ2013ء میں شروع ہوا تھا جب جیو اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان نے ریگولیٹر آفکام میں کیس دائر کیا تھا۔اکتوبر،2013 سے اکتوبر،2015 دو سال تک اے آر وائی نیوز نے جھوٹ اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مہم چلائی، ہتک عزت کی اس مہم میں الزام عائد کیا گیا کہ میر شکیل الرحمان غدار، بھارتی ، امریکی اور برطانوی ایجنٹ ہے۔ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے بدعنوانی کے ذریعے پیسہ بنایا۔ آفکام نے میر شکیل الرحمان کے حق میں فیصلہ دیا تھا کہ نجی ٹی وی نے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا اور ان کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی، اس کے بعد جیو اور جنگ گروپ مینجمنٹ اپنی شکایات لندن ہائی کورٹ لے گئی، 24سے زائد پروگراموں کی ٹرانسلیشن کروائی گئی، کیس کی سماعت نومبر2016ء میں شروع ہوئی اور دسمبر2016ء میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا تھا کہ میر شکیل الرحمان پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ہیں اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا، نجی ٹی وی کو 3 ملین پونڈ ادا کرنے کا حکم دیا، ایک ماہ بعد چینل بند کردیا گیا اور اس کے اثاثے لیکوئڈائز کردیے گئے۔ جیو اور جنگ گروپ نے اب تک ان تمام میڈیا آئوٹ لیٹس کو جنہوں نے اسی طرح کے الزامات لگائے کو کئ نوٹسز بھیجےجن میں سے کچھ وضاحتوں کے ساتھ اور کچھ معافی مانگنے پر نمٹا دیے گئے،تقریباً پانچ سال قبل میر شکیل الرحمان نے اس حوالے سے متعدد مقدمات پاکستان میں دائر کیے جو کہ اب بھی عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ بزنس مین میں منشا، سیاسدان برجیس طاہر، نے برطانیہ میں گزشیہ دو سالون میں ہتک عزت کے کیسز جیتے ہیں، تب سے متعدد سیاسدانوں، مزنسمینوں، اور دیگر افراد بھی اس قطار میں شامل ہوئے اور اپنی شکایات آفکام میں داخل کرائیں اور یوکے میں پاکستانی ٹی وی چینلز کی براڈکاسٹس سے متعلق لندن ہائی کورٹ میں مقدمہ بازی شروع کی، تقریباً تمام چینلز بشمول دنیا، سما، جیو نیوز، این وی ٹی وی (اے آر وائی) 92 نیوز، چینل 44، مختلف شکایات پر پاکستانیوں کی جانب سے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی اس لیے یوکے کورٹس میں آتے ہیں کیونکہ یہاں فیصلے دو تین سال میں آجاتے ہیں، اور میڈیا ریگولیتر جانبداری نہیں کرتا اور کیسز کا فیصلہ میرٹ پر ہوتا ہے۔
تازہ ترین