• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: جلال چوہدری۔۔۔ایڈنبرا
واہ بھئی واہ، مولانا تیری سیاست کو سلام۔ اس کو کہتے ہیں سیاست۔ مولانا نے وہ کر دکھایا جس کی کسی کو بھی امید نہیں تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ چار، پانچ ہزار کا مجمع ہوگا مگر یہاں تو یہ حالت ہے کہ تاحد نظر لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔ یقیناً مولانا کے اس بیان کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا اسلام آباد میں سب سے بڑا اجتماع تھااور نظم و ضبط کا یہ حال کہ نہ کوئی پتھر پھینکا گیا نہ کوئی گملا توڑا گیا۔ سیاسی جماعتیں، حساس ادارے، خود حکومت سب کے سب انگشت بدنداں ہیں کہ یہ سب کیا ہوگیا، کیسے ہوگیا، اس کے پیچھے کون ہیں، اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، کس نے دیا، کس کو دیا، مولانا اور مارچ میں شرکا تک کیسے پہنچا۔ مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ پاکستان کے ایک منجھے ہوئے صحافی اور اینکر نے تو جس کا اپنا ایک پروگرام ہے، اپنے پروگرام میں برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس مارچ کا کل خرچہ ن لیگ نے دیا ہے۔کسی طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مولانا کو یہ پیسہ امریکہ، مغربی ممالک نے دیا ہے۔ کوئی ہندوستان کا نام لے رہا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مغربی بارڈر پر اسمگلنگ کا دھندہ کرنے والے اور ڈرگ مافیا میں ملوث لوگوں نے دیا ہے ایک اور اینکر اور صحافی نے تو عمران خان کا ہی نام لے دیا۔ دراصل اس سے کسی نے سوال کیا کہ مولانا کو اسلام آباد کون لایا ہے، اس کا جواب تھا کہ عمران خان، اپنے اس جواب کی وضاحت اپنے ایک آرٹیکل میں بھی کی ہے جو ایک پاکستانی اخبار میں چھپی۔ اس کے آرٹیکل کا لب لباب یہ تھا کہ یہ سب عمران خان کی بے وقت جوشیلی تقریریں تھیں جو مولانا کو اسلام آباد لے آئیں۔ ضروری نہیں کہ سب لوگ اس کے نقطہ نظر سے متفق ہوں، لیکن ملکوں اور لوگوں کے نام جو ذکر کیے گئے ہیں ان کی وجوہات کچھ یوں ہے، مغربی ممالک، امریکہ اور اسرائیل کا نام لینے والے، اس کی وجہ عمران خان کی گزشتہ دنوں اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کہہ رہے ہیں، کئی ایک ممالک کے مختلف اخبارات میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ جب بھی کسی مسلمان لیڈر نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں پیار و محبت اور اتفاق و اتحاد کا بیڑہ اٹھایا ان طاقتوں نے اس کو ختم کردیا۔ اس کے لیے وہ شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی مثالیں دیتے ہیں، لکھنے والوں نے یہ بھی لکھا کہ اب یہ بات عمران خان نے اٹھائی ہے، اس لیے عمران خان کو محتاط رہنا چاہیے اور اللہ سے عمران خان کی حفاظت کے لیے دعائیں بھی کی گئی تھیں۔ ان کے مطابق یہ مارچ، دھرنا اسی عمل کی پہلی کڑی ہے اور اسی طرح جو ہندوستان کا نام لے رہے ہیں ان کی بات میں بھی وزن ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ ویسے بھی ہندوستان اپنے اس طریقہ کار کو پاکستان کے معاملہ میں مدت سے استعمال کررہا ہے اور اپنے بیانات اور دھمکیوں سے اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ میرے خود کے پاس ایک ویڈیو ہے جو انڈین نیوز چینل سے براہ راست ریکارڈ کی گئی تھی، اس میں ہندوستان کے ایک جرنیل سے ہندوستانی میڈیا کے نمائندے سوالات کررہے تھے۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ پاکستان کے دہشت گرد، شب خون مارکر، ہماری فوجوں اور فوجی سازو سامان کو نقصان پہنچاکر واپس پاکستان چلے جاتے ہیں۔ ہندوستانی فوج پاکستان پر براہ راست ہلہ بول کر ان کو سبق کیوں نہیں سکھاتی، جرنیل نے جواب دیا تھا کہ پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے، ہمیں پورا پورا علم ہے کہ پاکستان کا جنگی سامان اور اس کے دہشت گرد پاکستان میں کہاں کہاں ہیں۔ یقیناً ہم ان پر حملہ کرکے نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے اندر گھس کر حملہ کرنے میں کچھ مشکلات ہوتی ہیں اور یہ کہ خود اپنے جوانوں کو نقصان پہنچ جانے کے بھی خدشات ہوتے ہیں لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں پر پیسے دے کر اس کے لوگوں سے کچھ بھی کروا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس اسٹریٹجی پر عمل کررہے ہیں، جب پیسے دے کر ان کے اپنے ہی لوگوں سے وہ کام کروایا جاسکتا ہے تو ہم اپنے جوانوں کی زندگیوں کو کیوں خطرے میں ڈالیں۔ ان کا حال ہی میں بھی ایسا ہی ایک بیان جاری ہوا تھا اور اسی طرح جو لوگ ڈرگ مافیا اور اسمگلرز کی بات کرتے ہیں، اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عام اندازے کے مطابق آٹھ سے دس ارب سالانہ ڈالر کا سامان، بلوچستان اور افغانستان کے بارڈر سے پاکستان کے اندر اسمگل کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے، کسٹم ڈیوٹی نہ دیے بغیر جو سامان پاکستان کے اندر آئے گا وہ اس سامان کے مقابلہ میں سستا بکے گا جو سامان پاکستان میں تیار ہورہا ہے یا جس سامان پر ڈیوتی دی گئی ہے، پاکستان کے خزانہ میں پیسہ نہیں جائے گا اور جب ہماری فیکٹریوں کا سامان فروخت نہ ہوگا تو فیکٹریاں بند ہوں گی، لوگ بے کار ہوں گے۔ ملک میں پہلے ہی بیروزگاری کا طوفان آیا ہوا ہے، اس لیے عمران خان کی حکومت کا سب سے اہم مشن اس اسمگلنگ کو ختم کرنا ہے۔ اس کے لیے بھرپور طور پر کام ہورہا ہے۔ بارڈر پر باڑ لگائی جارہی ہے اور بہت حد تک کامیابی بھی ہورہی ہے۔ سرحد پر بسنے والی اکثریت کا اسمگلنگ ہی واحد کاروبار ہے۔ وہ اس سے بہت پریشان ہیں، وہ ہر حالت میں عمران خان کی حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ ان اسمگلروں اور ڈرگ مافیا میں کئی ایک اربوں پتی ہیں اور اتفاق سے ان کا تعلق پاکستان کی ایک عمران مخالف، بڑی سیاسی پارٹی سے بھی ہے اور اسی طرح اندرون خانہ کچھ ایسے ادارے ہیں جو صلح و صفائی چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات کے پیش نظر نظر عمران خان دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرکے پوری توجہ پاکستان کی معیشت کی بحالی پر مرکوز کریں اور پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالیں اور عمران خان کوئی نرمی برتنے کے لیے تیار نہیں، کچھ لوگ سوچ رہے، شاید یہ سب کچھ عمران خان کی سوچ میں نرمی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ بہرحال جیسے کہتے ہیں، جتنے منہ اتنی باتیں۔ حقیقت کیا ہے، کبھی نہ کبھی منظرعام پر آ ہی جائے گی۔ اللہ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔ (آمین) ویسے عمران خان کی تو یہ حالت ہے
عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خدائوں سے الجھ بیٹھا ہوں
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ واقعی مولانا ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ کاش دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنے دوراقتدار میں ان کو اپنی حکومتوں میں کوئی اہم عہدہ دے کر ان کی صلاحیتوں کو پاکستان کے لیے فائدہ مند ہونے کا موقع فراہم کرتیں اور اب پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ مولانا ایک گوہر نایاب ہے۔ اس کو مٹی میں نہ رلنے دو۔ اپنی صف میں لے لو۔ مولانا بڑے کام کی شے ہے۔ تمہارے کام آئے گی۔ خصوصاً آج کل جبکہ وہ پاکستان کی دوسری بڑی دو سیاسی پارٹیوں کی بے وفائی کے زخم زدہ ہیں۔
تازہ ترین