• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نواز شریف کو جانے کی اجازت، بانڈ کی شرط ختم، ECL سے نام نکالنے کا حکم، 4 ہفتوں میں صحت یاب نہ ہوئے تو مدت بڑھ سکتی ہے، لاہور ہائیکورٹ

نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم


لاہور (نمائندہ جنگ،جنگ نیوز) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کوعلاج کی غرض سے 4؍ہفتوں کیلئے بیرون جانے کی اجازت دیدی۔ 

دو رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کے وکیل کی اس استدعا کو مسترد کر دیا کہ نواز شریف سے بیرون ملک جانے سے پہلے کوئی گارنٹی لی جائے، دو رکنی بینچ نے نوازشریف کی بیرون ملک جانے کیلئے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی طرف سے انڈیمنٹی بانڈ کیساتھ مشروط اجازت کیخلاف شہباز شریف کی درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرلی۔ 

عدالت نےقرار دیا کہ نوازشریف چار ہفتوں میں صحت یاب نہ ہوئے تو مدت قابل توسیع ہوگی،جس کیلئے متعلقہ حکام کو درخواست دینا ہوگی۔ لاہور ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت اپنے سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔ 

لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کی بیرون ملک جانے کی درخواست پر مختلف وقفوں کے ساتھ لگ بھگ 6گھنٹے سماعت کی 4 مرتبہ شہباز شریف ، نواز شریف اور وفاقی حکومت کے وکلا کو کسی نتیجہ پر پہنچنے کیلئے مشاورت کیلئے وقفہ کیا۔ 

شہباز شریف اورنواز شریف کی طرف سے علاج کے بعد وطن واپس آنے کی تحریری یقین دہانی کرائی مگر وفاقی حکومت کے وکلا نے اعتراض اٹھایا وفاقی حکومت کی طرف سے بھی ایک ڈرافٹ تیار کرکے عدالت اور شریف فیملی کے وکلا کو جائزہ کیلئے پیش کیا گیا تاہم حکومتی ڈرافٹ میں شورٹی بانڈ کا ذکر کرنے پر شہباز شریف کے وکلا نے اعتراض کر دیا جس پر عدالت نے خود ایک ڈرافٹ تیار کرکے فریقین کو اس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی عدالتی ڈرافٹ میں نواز شریف کو 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک علاج کیلئے اجازت دینے اور وفاقی ھکومت کے نمائندہ کو انکے علاج کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا لکھا گیا جس پر وفاقی حکومت کے وکلا نے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس ڈرافٹ میں نواز شریف سے واپسی کی شورٹی نہیں مانگی گئی اگر وہ واپس نہ آئے تو کون ذمہ دار ہوگا تاہم شہباز شریف اور انکے وکلا نے عدالتی ڈرافٹ پر اطمینان ظاہر کیا۔ 

عدالت نے قرار دیا کہ بیان حلفی پر عمل نہیں ہوتا تو توہین عدالت کی کارروائی کا آپشن موجود ہے، حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے ر ابطہ کرسکے گا۔ شہباز شریف سماعت کے دوران مسلسل کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

شہباز شریف کے وکلا نے نشاندہی کی کہ اینڈیمنٹی بانڈز کی شرط غیر آئین اور قانون کے منافی ہے۔۔وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور جواز پیش کیا کہ اگر نواز شریف واپس نہ ائے تو جرمانہ کون ادا کرےگالاہور ہائیکورٹ نے تفصیلی سماعت کے بعد چار نکات پر مشتمل مسودہ تیار کیا جسے مسلم لیگ ن نے تو تسلیم کرلیا لیکن وفاقی حکومت کے وکیل اعتراض اٹھایاکہ اس میں گارنٹی کی کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔

عدالت نے اسی ڈرافٹ کے تحت نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی دی۔ دو رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت گزشتہ روز تقریباً بارہ بجے شروع کی۔فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اس سے پہلے سماعت شروع کریں کچھ سوال تیار کر لیتے ہیں۔

عدالت کی طرف سے بتائے گئے سوالات میں کہا گیا کہ کیا شرائط جو لگائی گئی ہیں وہ علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟کیا کوئی چیز میمورنڈم میں شامل کی جا سکتی ہے یا نکالی جا سکتی ہےَ؟کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟ کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟یا فریقین نواز شریف کے واپس آنے سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟

نواز شریف کے وکلاءاشتر اوصاف اور امجد پرویز عدالت پیش ہوئے وفاق کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان بھی پیش ہوئے نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل چودھری خلیق الزمان اور سپیشل پراسکیوٹر سید فیصل بخاری و دیگر بھی پیش ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے فاضل عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے اور وہ علاج کیلئے باہر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر نواز شریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جو بھی شرائط عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہیں تھیں فاضل عدالت نے کہا کہ کیا آپ درخواست گزار سے ہدایات لینا چاہتے ہیں؟

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کمرہ عدالت میں ہی ہیں عدالت نے مشورہ کرنے کیلئے سماعت 15 منٹ کیلئے ملتوی کر دی کمرہ عدالت میں شہباز شریف امجد پرویز ایڈووکیٹ اور اشتر اوصاف علی ایڈووکیٹ سے مشاورت کر تے رہے 34 منٹ بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل نے فاضل عدالت کو بتایا کہ نیب نے نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنس دائر کئے 7 ستمبر 2017 کو 3 ریفرنس دائر کئے گئے ریفرنس دائر کرتے ہوئے نواز شریف پاکستان میں نہیں تھے۔

 احتساب عدالت کے طلب کرنے پر نواز شریف فوری پیش ہوئے اورسرنڈر کیا نواز شریف ڈیڑھ برس کی کارروائی میں ایک روز بھی عدالت سے غیر حاضر نہیں ہوئے اس دوران نواز شریف بیرون ملک گئے اور واپس بھی آئے مگر اس وقت تک نام ای سی ایل میں نہیں تھا نواز شریف اکیلے واپس نہیں آئے بلکہ بیٹی کو بھی ساتھ لائے نواز شریف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں نواز شریف کیخلاف سزائیں اپیل میں آخر کار ختم ہو جائیں گی جب اپیل عدالت سن رہی ہو تو سرکار کو سزا معطل کرنے کا اختیار ہی نہیں نواز شریف یقین دہانی کروانے کو تیار ہیں۔

جب بھی صحت مند ہوں گے واپس آئیں گے فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ کیا زبان ہو گی جو آپ بیان حلفی دیں گے درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے ڈاکٹرز کی سفارش پر نواز شریف کو بیرون ملک بھجوایا جانا ہے نواز شریف جب صحت مند ہوں گے تو اللّٰہ واپس لائیں گے عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ انکو واپس لانے کیلئے آپ کا کیا کردار ہو گا؟

شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ وہ بھرپور سہولت فراہم کریں گے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ25 نومبر کیلئے اپیل سماعت کیلئے مقرر ہو گئی ہے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل سماعت کیلئے مقرر ہوئی ہے نواز شریف کے واپس آنے اور باہر جانے سے متعلق تسلیم شدہ حقیقت ہے ہم صرف ایک تحریری بیان مانگ رہے ہیں جو قانون اجازت دیتا ہے فاضل عدالت نے قرار دیا کہ قانون آپ کو اجازت نہیں دیتا۔

نیب نے اپنی رضامندی آپکو نہیں دی اگر رولز کے مطابق نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی اجازت ہو تو آپ نے رولز کو بائی پاس کیا یہ جو بیان حلفی دینا چاہ رہے ہیں آپ دیکھ لیں ہم چاہتے ہیں کہ دونوں فریقین کی رضا مندی سے معاملہ حل کروانا چاہتے ہیں شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ نواز شریف جب صحت مند ہوں گے ایک منٹ میں واپس آئیں گے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ واپسی کی یہ انڈر ٹیکنگ 3 بار کے وزیراعظم اور سابق وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے ہو گی عدالت نے سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل رضا مندی کی فضا بن گئی ہے۔

 اس کا فائدہ اٹھایئے عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ ہمیں ڈرافٹ بنا کر دیں ہم ان الفاظ کو دیکھ لیں گے اشتر اوصاف علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق کسی شہری پر شرط عائد نہیں کی جا سکتی عدالت نے دوبارہ سماعت 15 منٹ تک کیلئے ملتوی کر دی اور نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا ڈرافٹ طلب کر لیا عدالتی حکم پر ایڈیشنل رجسٹرار کورٹ نے سماعت اڑھائی بجے تک ملتوی کرنے کا کہا ان کے مطابق فریقین کو ہدایات لےکر اڑھائی بجے دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کے مسودے کو وفاقی حکومت نے مسترد کردیا سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اس مسودے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے وفاقی حکومت اپنا تیار کردہ مسودہ بھی عدالت میں پیش کرے گی اس کے بعدعدالت نے مجوزہ نئے بیان حلفی میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئے 4 ہفتے کا وقت دیا اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے۔

مجوزہ متن میں مزید کہا گیا کہ حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا عدالت نے وفاقی حکومت اور شہباز شریک کے وکلاءکو کومجوزہ متن فراہم کردیا ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا کہ جب وفاقی حکومت یہ سمجھتی ہوگی کہ نواز شریف صحت مند ہیں تو سفارت کار کے زریعے رابطہ کریں گے۔

صحت مند ہونے کے بعد اگر نواز شریف ملک واپس نہیں آئیں گے توپھر عدالت کا دروازہ کھٹکٹائیں گے توہین عدالت کی کاروائی کی درخواست دائر کریں گے آئندہ سماعت میں قانونی نکات پر بحث ہو گی درخواست پر مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے میں ہو گی مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف، جاوید ہاشمی، احسن اقبال، پرویز رشید، سائرہ افضل تارڑ، عطا اللّٰہ تارڑ اور دیگر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

تازہ ترین