• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج زیادہ تر ممالک اقتصادی ترقّی کی دوڑ میں کچھ اس انداز سے شامل ہو چکے ہیں کہ انہیں دُنیا میں بہ تدریج رُونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرنے کا وقت بھی نہیں مل رہا۔ شدید مسابقت کے نتیجے میں صدیوں تک دوستی نبھانے کا عہد کرنے والے ممالک اب علیحدگی کی راہ پر چل نکلے ہیں اور بریگزٹ یعنی برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا اس کی بہترین مثال ہے۔ تاہم، اقوامِ عالم کو شاید ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں کہ امریکا اور یورپ بھی آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے دُوری اختیار کر رہے ہیں۔ بریگزٹ کی طرح اس کا بنیادی سبب بھی قوم پرستی ہی ہے۔ 

ان دنوں یورپ میں امریکا کے اثر و رسوخ سے نکلنے کی خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے اور اس ضمن میں فرانس کے جواں سال صدر، ایمانوئیل میکروں خاصے پُر جوش ہیں۔ اس تمنّا کی ایک وجہ تو امریکا میں قوم پرست رہنما، ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں آنا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مُہم میں ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور پھر صدر بنتے ہی اپنے انتخابی وعدوں کو عملی شکل بھی دینا شروع کر دی، جس سے یورپ کے مفادات کو ٹھیس پہنچی۔ 

اس پر فرانسیسی صدر نے ایک سے زاید مرتبہ یہ کہا کہ ’’امریکا نے یورپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور اگر ہم (یورپی ممالک) اب بھی نہ جاگے، تو جلد ہی انجام کے قریب پہنچ جائیں گے۔‘‘ قبل ازیں، جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل نے یہی مؤقف اختیار کیا تھا، لیکن چوں کہ اگلے ماہ وہ اقتدار سے الگ ہورہی ہیں، چناں چہ میکروں اُن کے جانشین کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ فرانس کے طاقت وَر صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ کو اپنے دفاع کے لیے نیٹو کی بہ جائے اپنی فوج تیار کرنی چاہیے، تاکہ یورپی اتحاد کو ایک متبادل سُپر پاور کی شکل دی جا سکے۔ نیز،اس میں مغرب کے دیرینہ دشمن، رُوس کی بھی شمولیت ہونی چاہیے۔

امریکا اور یورپ میں دُوری کا اہم سبب ٹرمپ کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ یورپ کے دفاع کے لیے قائم، نیٹو کو برقرار رکھنے کے لیے یورپی ممالک کو اپنے حصّے کی رقم ادا کرنی چاہیے۔ اس وقت یورپ، نیٹو کے مجموعی بجٹ کا 21فی صد حصّہ ادا کر رہا ہے، جب کہ باقی سارا بوجھ امریکا پر ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ نیٹو یانارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن دوسری عالمی جنگ کے بعد اپریل 1949ء میں وجود میں آئی تھی۔ 

تُرکی سمیت 29ممالک اس میں شامل ہیں۔ نیٹو کے قیام کا بنیادی مقصد سوویت یونین کی فوجی قوّت کا مقابلہ اور جنگ کے خطرات کی صورت میں رُکن ممالک کا، جس میں یورپی اور شمالی امریکی ریاستیں شامل ہیں، دفاع کرنا تھا۔ غالباً نیٹو وہ واحد فوجی تنظیم ہے کہ جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد عملاً اہم فوجی معرکوں میں حصّہ لیا، جن میں سوویت یونین سے محاذ آرائی، افغانستان میں دو مرتبہ جنگ، عراق میں دو مرتبہ فوج کَشی اور لیبیا میں فوجی کارروائی شامل ہے۔ 

نیٹو کا صدر دفتر بیلجیم کے دارالحکومت، برسلز میں ایور ے کے مقام پر واقع ہے اور یہ شہر ’’یورپی یونین کا دل‘‘ کہلاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، نیٹو میں شامل ممالک دُنیا بَھر میں دفاعی امور پر خرچ ہونے والی رقم کا 70فی صد خرچ کرتے ہیں۔ گرچہ دستاویزی طور پر تو نیٹو کے قیام کا مقصد صرف یورپ کا دفاع ہے، لیکن در حقیقت یہ مغربی طاقتوں کی برتری یقینی بنانے کے لیے استعمال ہونے والا ایک عسکری وِنگ ہے۔ نیز، نیٹو کی اصل طاقت یورپ کی بہ جائے امریکا ہے۔

ماضی پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ دو عالمی جنگوں کے بعد یورپ کھنڈر بن چکا تھا اور بڑی یورپی طاقتیں اپنے زخم چاٹ رہی تھیں۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ ’’مغرب کا پاور ہائوس‘‘ دوبارہ کبھی نہیں اُٹھ پائے گا، جسے خود یورپیوں کے جنگی جنون نے تباہ کر دیا تھا۔ تاہم، اس موقعے پر امریکا، یورپ کا دست و بازو اور سہارا بنا۔ گرچہ جرمنی کے نازی رہنما، ہٹلر کی شکست اسی کے رہینِ منّت تھی، لیکن یورپ کی بحالی اس سے کہیں زیادہ مشکل کام تھا۔ البتہ امریکا کے مارشل پلان اور اربوں ڈالرز کی امداد نے یورپ کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔ 

پھر امریکا ہی کی سفارت کاری کے نتیجے میں یورپی یونین وجود میں آئی اور یہ اس اعتبار سے ایک بڑا کارنامہ تھا کہ مذکورہ اتحاد صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ممالک پر مشتمل تھا۔ علاوہ ازیں، امریکا ہی نے یورپ کو سوشلزم کے عَلم بردار سوویت یونین کی یلغار سے محفوظ رکھا اور آج بھی یورپ کی سرحدیں نیٹو ہی کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ سویت یونین کے انتشار کے بعد جب اس کا عسکری وِنگ، وارسا پیکٹ ختم ہو گیا، تو شاید اُسی وقت ہی یورپ نے نیٹو کے کردار پر نظرِ ثانی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تب نیٹو کے بجٹ میں یورپ کا حصّہ تقریباً 34فی صد تھا، جو بہ تدریج کم ہوتے ہوتے2012ء میں 21فی صد تک پہنچ گیا اور اب اس سے بھی کم ہے۔ 

نیٹو کے بجٹ میں کمی یورپی ممالک کی اس دفاعی تنظیم میں عدم دل چسپی کا مظہر ہے یا پھر یورپ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس کے دفاع کی ذمّے داری امریکا کے پاس ہے۔ واضح رہے کہ عالمی اقتصادی بُحران نے یورپی ممالک کا بھرکس نکال دیا تھا اور یہ نیٹو کو سہارا دینے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اس موقعے پر اُس وقت کے امریکی صدر، باراک اوباما نے دبے لفظوں میں یورپ سے نیٹو کے حصّے میں اضافے کا مطالبہ کیا، البتہ ان کا انداز مصالحت آمیز تھا۔ تاہم، ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد دھمکی آمیز لہجہ اپنایا۔ نیز، وہ ایک سے زاید مرتبہ اس بات کا بھی برملا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر یورپی ممالک نیٹو میں اپنے حصّے کی رقم ادا نہیں کرتے، تو امریکا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ان کے دفاع کا بوجھ برداشت کرے۔ 

اس دوران یورپ میں قوم پرستی کی آوازیں بھی توانا ہونا شروع ہو چکی تھیں اور برطانیہ سے لے کر فرانس اور جرمنی تک میں قوم پرست رہنما مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہو چکے تھے، جب کہ امریکا میں ٹرمپ پہلے ہی ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ بلند کر چکے تھے۔ نتیجتاً، دونوں حلیفوں میں تصادم کی کیفیت جنم لینے گی۔ 

اُس وقت تک میکروں ایک عالمی رہنما کے طور پر مشہور تھے اور بین الاقوامی تعاون کے بہت بڑے داعی سمجھے جاتے تھے۔ تاہم، حیران کن اَمر یہ ہے کہ انہوں نے بھی امریکا اور نیٹو پر شدید تنقید شروع کردی، جس پر مغربی ممالک سمیت دُنیا کے بیش تر ممالک نے حیرت کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ ہی امریکا کے بغیر مضبوط یورپ کے تصوّر پر غور کیا جانے لگا۔

ہرچند کہ فرانسیسی صدر اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا اور یورپ نے ایک ساتھ مل کر ترقّی کا سفر طے کیا اور مغرب کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کیں۔ تاہم، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں قدم رنجہ ہونے کے بعد صورتِ حال بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکی صدر نہ صرف یورپ کا نقطۂ نظر سمجھنے پر آمادہ نہیں، بلکہ اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اسے فرانسیسی صدر کا امریکا سے شکوہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ 

اپنے اسی استدلال کی بنیاد پر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ اب سیاسی و دفاعی طور پر بھی یورپ کی جانب سے اپنی خود مختاری کے اظہار کا وقت آن پہنچا ہے اور اس سلسلے میں فرانس قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی مختلف فرانسیسی صدور امریکا سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔ 

فرانس کی جانب سے 1966ء میں نیوکلیئر ڈیٹیرینس سسٹم کی تیاری اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ تب فرانسیسی قیادت کا خیال تھا کہ شاید سوویت یونین کے حملے کی صورت میں امریکا یورپی سر زمین کا دفاع نہ کر سکے۔ اس وقت یورپ بالخصوص فرانس کو مشرقِ وسطیٰ سے امریکی افواج کے انخلا کے طریقۂ کار سے بھی اختلاف ہے۔ 

گرچہ یورپ نے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، لیکن اس کا مؤقف یہ ہے کہ امریکا کو مشرقِ وسطی میں موجود اپنے اتحادیوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس ضمن میں یورپی رہنما کُردوں کی مثال پیش کرتے ہیں، جنہوں نے داعش کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یورپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا نے کُردوں کے خلاف کارروائی کے لیے تُرکی کو کھلی چُھوٹ دے رکھی ہے۔ قبل ازیں، سابق امریکی صدر، باراک اوباما نے بھی شامی افواج کے اپنے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر ان کے خلاف کارروائی سے گریز کیا تھا اور شامی اپوزیشن اور عوام کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ 

فرانس اور یورپ کی ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ امریکا ،مشرقِ وسطیٰ میں عدم دل چسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس سلسلے میں یورپ کو خاطر خواہ حد تک اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اسی طرح امریکا نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کر لی، جب کہ یورپ ابھی تک اس کا حصّہ ہے۔ یورپی ممالک اپنے مفادات کے پیشِ نظر ایران سے دُوری اختیار کرنے میں متامل ہیں، جب کہ امریکی صدر سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک اور اسرائیل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح امریکا کی خارجہ پالیسی میں مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا درجہ بھی گھٹ گیا ہے اور اس خطّے میں اسے بھارت جیسی بڑی اقتصادی قوّت کے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ 

پھر امریکا، افغانستان سے نکلنے کے لیے بھی بے تاب ہے، لیکن اس معاملے میں یورپ کوئی کردار ادا نہیں کر رہا، حالاں کہ نیٹو نے پہلی اور دوسری افغان جنگ میں بھرپور حصّہ لیا تھا۔ فرانسیسی صدر کو امریکی صدر سے ایک شکایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے امریکا، یورپ تجارت کو نقصان پہنچایا۔ 

میکروں کے خیال میں ٹرمپ کے امریکی مفادات کو ترجیح دینے کے عمل سے یورپ اور دُنیا کو نقصان پہنچ رہا ہے، لہٰذا اب یورپ کو آزادانہ طور پر اپنی حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے۔ خیال رہے کہ اس وقت چین اور رُوس جیسے غیر جمہوری ممالک اقتصادی معاملات میں تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔نیز، جغرافیائی طور پر رُوس یورپ میں ہے اور چین یورپ سے قریب تر ، جب کہ امریکا اس سے ہزاروں میل کی دُوری پر واقع ہے۔

اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ فرانسیسی صدر یورپ کی نمایندہ آواز ہیں، تو کیا فوری طور پر یورپ، امریکا کے سہارے کے بغیر چل پائے گا۔ کیا وہ مغرب کی برتری برقرار رکھ سکے گا یا خود کو ایک بڑی طاقت کے طور پر منوا سکے گا۔ فوجی ماہرین کے مطابق، اس وقت نیٹو پر یورپ کا انحصار اتنا زیادہ ہے کہ اگر وہ اس سے جُزوی علیحدگی بھی اختیار کرتا ہے، تو جدید ہتھیاروں بالخصوص میزائل ڈیفینس سسٹم، خطّے کی فوجی نگرانی اور انٹیلی جینس شیئرنگ میں اتنے خلا پیدا ہو جائیں گے کہ جنہیں فوری طور پر یورپ کی دفاعی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری سے پُر کرنا ممکن نہ ہو گا۔ 

پھر اس وقت یورپ کی زیادہ تر توجّہ اقتصادی بحالی پر مرکوز ہے اور دفاع اس کی اوّلین ترجیحات میں شامل نہیں اور نہ ہی اس مقصد کے لیے یورپ کے پاس سرمایہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیش تر معاملات میں رُوس کا ساتھ چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ رُوس، یورپ کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا مُلک ہے اور اس کے بغیر یورپی ممالک کا گزارہ ممکن نہیں۔ 

علاوہ ازیں، جرمنی کی رُوسی زبان بولنے والی چانسلر، اینگلا مِرکل نے یوکرین کے بُحران کے بعد پیوٹن کو کسی بڑی فوجی مُہم سے دُور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت جرمنی کی معیشت ہی یورپ کی ڈرائیونگ فورس ہے، جب کہ فرانس کی خواہش یہ ہے کہ امریکا سے دُوری اختیار کرنے کے بعد رُوس کو قریب لانے کی کوشش کی جائے، تاکہ خطرات کم ہو جائیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رُوسی قوم پیوٹن جیسے قوم پرست رہنما کو یہ حقیقت فراموش کرنے کی اجازت دے گی کہ آج سے محض 30برس قبل اسی یورپ نے سوویت یونین کے حصّے بخرے کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ نیز، ماہرین یہ بات بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ چین اور امریکا کے مابین جاری تجارتی جنگ میں یورپ کوئی کردار ادا کر سکے گا، کیوں کہ چینی صدر، شی جِن پِنگ اور اُن کے امریکی ہم منصب دونوں ہی غیر معمولی قوم پرست رہنما ہیں۔ 

وہ باہمی مفادات کے تحت کسی دو طرفہ معاہدے پر تو متفق ہو سکتے ہیں، لیکن یورپ کی ثالثی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ چین یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت ہے اور عالمی منظر نامے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر امریکا نے مشرقِ وسطیٰ سے واپسی کے بعد جنوب مشرقی ایشیا اور ایشیا پیسیفک کو اپنی توجّہ کا محور بنا لیا ہے۔ یہاں جاپان، جو دُنیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوّت اور چین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، امریکا کا اتحادی ہے اور جاپانی وزیرِ اعظم، شنزو ایبے بھی ایک قوم پرست رہنما ہیں۔

پھر اس خطّے میں ویت نام اور جنوبی کوریا بھی امریکا کے دست و بازو بن چکے ہیں اور شمالی کوریا بھی اس سے قول و قرار میں مصروف ہے۔ فرانسیسی صدر شاید یہ بھی بُھول رہے ہیں کہ اس وقت بریگزٹ کی شکل میں خود یورپی اتحاد ایک بڑی آزمائش سے گزر رہا ہے اور برطانیہ، یورپی اتحاد کا ایک اہم ستون ہے۔ اسی طرح اسپین، جرمنی، بیلجیم اور یونان داخلی مسائل سے دوچار ہیں، جب کہ مشرقی یورپ میں پولینڈ اور ہنگری سمیت دوسرے چھوٹے ممالک کسی طور بھی امریکا سے دُوری پسند نہیں کریں گے، کیوں کہ انہیں ابھی تک سوویت یونین کا دَور یاد ہے۔

اگر اس صورتِ حال میں یورپ، امریکا کو خیر باد کہہ دے گا، تو وہ تنہا ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کیسے کرے گا اور پھر مغرب کی برتری کا بھرم کیسے قائم رہے گا۔ یورپ کی امریکا سے دُوری کے فلسفے پر فرانسیسی صدر کو ان کڑے سوالات کا با بار سامنا کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین