• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرحد پار سے اسمگلنگ یعنی سرکاری ٹیکسوں کی ادائیگی کے بغیر اشیا کی درآمد و برآمد قومی معیشت کے لیے جس قدر تباہ کن جرم ہے، اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ معتبر اعداد و شمار کے مطابق صرف تیل کی ناجائز درآمد سے قومی خزانے کو اوسطاً ساٹھ ارب روپے سالانہ کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ اسمگلنگ کے باعث معیشت کو ہونے والے مجموعی سالانہ خسارے کا تخمینہ تین کھرب روپے کے لگ بھگ ہے۔ وطنِ عزیز کو روزِ اول سے اس مسئلے کا سامنا رہا، حکومتوں کی جانب سے اس پر قابو پانے کی کوششیں بھی بظاہر کی جاتی رہیں لیکن کسی بھی دور میں اس لعنت کا خاتمہ تو کجا اس کی مؤثر روک تھام بھی نہ ہو سکی۔ موجودہ حکومت بھی اس مقصد کے لیے مسلسل کوشاں ہے، مختلف اقدامات عمل میں لائے جا چکے ہیں اور اس ضمن میں تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ بارڈر مانیٹرنگ اینی شیٹِو (بی ایم آئی) کے تحت سرحد پار اسمگلنگ پر نظر رکھنے کے لیے اعلیٰ تکنیکی مہارتوں سے لیس کسٹم اور پیرا ملٹری فورس کے دستے تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کے مطابق گلگت بلتستان اسکاؤٹ اور پاکستان کوسٹ گارڈ کے دو اضافی دستوں کے ساتھ وزیراعظم نے دو ہزار سے زائد اہلکاروں کی بھرتی کی منظوری دے دی ہے جنہیں جدید ٹیکنالوجی کے حامل آلات، لاجسٹک سپورٹ اور ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا۔ کسٹم کی سرگرمیوں میں معاونت کے لیے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف لا اینڈ پراسیکیوشن قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، نیز براہِ راست وزیراعظم کے زیرِ نگرانی رہنما کمیٹی برائے انسدادِ اسمگلنگ بھی قائم کی گئی ہے۔ معیشت کے لیے زہرِ قاتل کی سی حیثیت رکھنے والے سنگین جرم کے خلاف موجودہ حکومت کے یہ اقدامات اس پر قابو پانے میں یقیناً بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہر سطح پر دیانتداری اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور معاملات کی ذمہ داری متعلقہ کام کی پوری اہلیت رکھنے والے فرض شناس افراد کے سپرد کی جائے۔

تازہ ترین