کراچی میں 1994ء میں نمودار ہونے والے ڈینگی وائرس نے 2005ء میں دیکھتے ہی دیکھتے ایسی نازک صورت اختیار کی کہ صرف لاہور میں ایک ہی وقت میں ہزاروں متاثرہ افراد اسپتالوں میں داخل تھے، جس سے درجنوں اموات واقع ہوئیں۔ اگلے برسوں میں ملک کے دیگر شہروں میں بھی اس نے زور پکڑا۔ اس وقت بھی اگرچہ بالائی پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع اور دیگر میدانی علاقے سردی کی شدت کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے ڈینگی مچھر کا موجودہ سیزن خاتمے کو پہنچ جائے گا لیکن اس صورتحال کے تناظر میں آئندہ بھی یہ خطرہ برقرار رہے گا۔ جس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 14برسوں کے دوران ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سال (2019میں) سب سے زیادہ ریکارڈ پر آئی ہے، جو 49587ہے۔ ان میں سے 13173کا تعلق اسلام آباد، 13251کا سندھ، 9855 کا پنجاب، 7776کا کے پی، 3217کا بلوچستان اور 1690کا آزاد کشمیر سے ہے۔ یہ صورتحال مزید تشویش کا باعث اس لئے بن گئی ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کو ڈینگی سے متاثرہ 10ملکوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اس لحاظ سے آنے والے اگلے بارہ ماہ ہمارے لئے انتہائی اہم ہیں، جس میں ملک کے 22کروڑ عوام اجتماعی سے انفرادی سطح تک وفاقی و صوبائی حکومتوں، صحت کے اداروں اور شہروں کے انتظامی حلقوں کے تعاون سے وطن عزیز کو ڈینگی سے پاک کر سکتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وفاقی وزارتِ صحت نے سابقہ تجربات کی روشنی میں ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کے تحت تمام صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ڈینگی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا جائے گا، بلاشبہ یہ وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998