• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (نیب) ہمیشہ تنقید کی زد میں رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ اس کا نشانہ زیادہ تر کرپشن، بدعنوانی اور ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث اہل اقتدار، طاقتور طبقات اور بیورو کریسی کے کرتا دھرتا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی شکایات تھیں کہ نیب گزشتہ ادوار کے کیسز پر لوگوں کی پکڑ دھکڑ تو کرتا ہے مگر وقت کے حکمرانوں اور ان کے حمایت یافتگان سے چشم پوشی اختیارکرتا ہے۔ اس وقت بھی اپوزیشن کی جانب سے ایسے ہی الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ منگل کو نیب راولپنڈی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بڑی تفصیل سے اس تاثر کی نفی کی اور بتایا کہ پہلے ہم 25 سے 30 سال پرانے مقدمات نمٹاتے رہے جس پر ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم اب ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکمران جماعت بری الذمہ ہے یا کوئی صاحب اقتدار ہے اس لئے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اب ہم دوسرے محاذ کی طرف جاکر یک طرفہ احتساب کا تاثر دور کریں گے۔ جس نے کرپشن کی اسے حساب دینا ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی آر ٹی پشاور پر سپریم کورٹ کا حکم امتناعی ختم کرانے کی کوشش کریں گے۔ ایک صوبے میں نیب کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ اب یہ صوبہ کارڈ نہیں چلے گا۔ کرپشن فری پاکستان ہماری منزل ہے اور ہم پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے تفصیل سے نیب کی کارکردگی اور کامیابیوں کا ذکر کیا۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کے خلاف کارروائی ملک کے بہترین مفاد میں اورہر شہری کی آواز ہے البتہ احتساب امیر و غریب، طاقتور و کمزور، سب کا یکساں ہونا چاہئے جسے یقینی بنانے کا عزم چیئرمین نیب نے ایک بار پھر دہرایا۔ کوشش ہونی چاہئے کہ احتساب کا سارا عمل قانون انصاف اور شفافیت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو تاکہ اس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

تازہ ترین