• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بر صغیر میں جاگیردارانہ و زمیں داری سماج کے باعث پٹواری کلچر ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ انگریز کے دورِ حکومت میں بھی پٹواریوں کو اہمیت حاصل تھی۔ پٹواری دراصل کسی بھی دیہہ یا گائوں میں زمینوں کے ریکارڈ کا محافظ ہوتا ہے۔ چونکہ صوبہ پنجاب دیہی پس منظر کا حامل ہے، اس لئے وہاں کے سیاسی حلقوں میں پٹواری کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ جس کی تصدیق ایک جامع اخباری رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں پنجاب بیورو کریسی میں پٹواریوں کے بڑھتے اثر و رسوخ کی بابت کئی چشم کشا انکشافات کئے گئے ہیں۔ صوبائی بیورو کریسی کے بعض ذرائع کا کہنا ہے اس وقت صوبے میں سرکاری ملازمین کے عہدۂ میعاد کا کوئی تحفظ نہیں اور انیتا ترابی کیس کی خلاف ورزی معمول بن چکی لیکن ریونیو ڈپارٹمنٹ کے نچلی سطح کے ملازمین یعنی پٹواری بدستور طاقتور ہیں۔ حیرت انگیز طور پر صوبائی سیکرٹری حتیٰ کہ چیف سیکرٹری کا تبادلہ بھی اتنا مشکل نہیں جتنا ایک پٹواری کا ٹرانسفر کرنا ہے۔ بعض حلقوں نے اس کاذمہ دار جہاں ایک طرف صوبے میں کمزور حکمرانی کو ٹھہرایا ہے، وہیں دوسری اہم وجہ بیورو کریسی میں بڑھتی سیاسی مداخلت بھی بتائی جا رہی ہے۔ پورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ریونیو ملازمین کی من پسند جگہ پر تقرری کیلئے سیاسی دبائو کی شکایت کرنے پر دو اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی، اسی طرح ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو 36پٹواریوں کے ٹرانسفر آرڈر جاری کرنے کی پاداش میں خود اتفاقی رخصت پر جانا پڑا۔یہ صورتحال پٹواری کلچر کے بااثر ہونے کی کھلی دلیل ہے جبکہ اس باب میں صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ دہائیوں پرانی خرابیوں اور سیاست زدگی کو چند برس میں ختم نہیں کیا جا سکتا تاہم عوام یہ پوچھنے میں بہر طور حق بجانب ہیں کہ صدیوں پرانے سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش بھی ابھی تک کیوں نظر نہیں آ رہی؟

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین