• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرعی پیداوار کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ سب کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ سال 2019-20ء کیلئے گندم کے فی من 1355روپے کے نرخ پر نظر ثانی کرتے ہوئے خصوصی طور پر تیل، فرٹیلائزر اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کے پیش نظر اس کی کم از کم قیمت 1400روپے مقرر کرے۔ فوڈ سیکورٹی میں گندم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور زرعی معیشت ہونے کے حوالے سے قدرتی حالات سازگار رہیں تو پاکستان نہ صرف اپنی اندرونی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ افغانستان سمیت بعض صورتوں میں دیگر ملکوں کو پیداوار کا ایک حصہ برآمد بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادی کے بے ہنگم پھیلائو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور آنے والے حالات پر نظر رکھنے کیلئے فی ایکڑ پیداوار کیساتھ ساتھ قابلِ کاشت رقبے میں اضافہ بھی ایک منطقی بات ہے۔ کسان کو اس کی محنت کا پھل ملنا چاہئے، دوسری طرف غریب عوام کو بھی دو وقت کی روٹی سے محروم کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ ان دونوں عوامل میں توازن رکھنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت وقت ہر سال گندم کی امدادی قیمت کا تعین کرتی ہے ویسے بھی گزشتہ برس گندم کی سرکاری قیمت خرید 1300روپے فی من تھی اور ابھی اس کی بوائی شروع ہوئی ہے اور مارکیٹ میں لوگوں نے آٹے کی قیمتیں بھی من مانے انداز میں بڑھا دی ہیں۔ اس صورتحال پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے اثرات آنے والی فصل پر پڑیں گے۔ اگر ایک طرف گراں فروش اور موقع پرست لوگ ہیں تو دوسری طرف غریب کاشتکار اور مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام ہیں جبکہ گندم اسمگل ہونے کی رپورٹوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امسال گندم کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں 5.64فیصد کم تھی۔ اگر قدرتی حالات سازگار رہے تو آئندہ یہ کمی پوری ہونی چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین