• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومتی نااہلی سے آرمی چیف کی توسیع پر سپریم کورٹ میں تنازع

اسلام آباد(ایجنسیاں‘مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت کی نااہلی کے باعث آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر عدالت عظمیٰ میں تنازع‘ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جاری نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم نے کس بنیاد پر آرمی چیف کو توسیع دی ‘ یہ صدر مملکت کا اختیار ہے جبکہ اس کا فیصلہ کابینہ نے کرنا ہوتاہے ‘ کابینہ کے 25 میںسے گیارہ ارکان نے توسیع دینے پررضامندی ظاہرکی تھی‘کابینہ کے جن ارکان نے اس معاملے میں جواب نہیں دیاان کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔

حکومتی نااہلی سے آرمی چیف کی توسیع پر سپریم کورٹ میں تنازع


عدالت کوبتایا جائے کہ کیا حکومت دیگرکابینہ ارکان کی خاموشی کو "ہاں" سمجھتی رہی ہے‘ عدالت کو بتایا جائے کہ آرمی چیف کی توسیع کی مدت کس طرح متعین اور کس طرح یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہنگامی حالات تین سال تک رہیں گے۔ 

عدالت نے مزید سماعت آج بدھ کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے اپناحکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا رہی ہے، حالانکہ علاقائی سیکورٹی سے نمٹنا کسی ایک افسر کی نہیں بلکہ بطور ادارہ پوری فوج کی ذمہ داری ہے اور اگرعلاقائی سیکورٹی کی صورتحال کو مدت ملازمت میں توسیع کی وجہ مان لیا جائے تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔

عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل نے واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ پاکستان آرمی سے متعلق قوانین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کے حوالے سے کوئی واضح شق موجود ہی نہیں ہے۔

منگل کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہرعالم میاں خیل اورجسٹس منصورعلی شاہ پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ 

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ وزیراعظم کوآرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کااختیار حاصل نہیں، بلکہ یہ اختیار صدرمملکت کوحاصل ہے ‘ پھر کس بنیاد پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میںتوسیع دی گئی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع صدر مملکت کی منظوری کے بعد کی گئی ہے اوراس کیلئے کابینہ سے سمری کی منظوری بھی لی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم نے کابینہ کی منظوری کے بعد سمری پر دستخط کئے تھے ،چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ قانون کے مطابق تو حتمی منظوری صدر نے دینا ہوتی ہے اب یہاں سوال یہ ہے کہ 19اگست کو وزیراعظم کو بتایا جاتا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دینا آپ کا اختیار نہیں‘ پھرپتہ چلاکہ توسیع دیناصدر اور وزیراعظم دونوں کا اختیار نہیں‘بلکہ یہ فیصلہ کابینہ نے کرنا ہوتا ہے جس کے بعد 21 اگست کو معاملہ منظوری کے لیے  کابینہ کو بھجوا دیا گیا، اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کابینہ کی اکثریت نے منظوری دی تھی کیونکہ کابینہ کے 25 میں سے گیارہ ارکان نے توسیع دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں اور کابینہ کے جن ارکان نے اس معاملے میں جواب نہیں دیا ان کا انتظار کرنا چاہئے تھا ‘ ان ارکان نے نفی میں بھی جواب نہیں دیا تھا‘ اب عدالت کو بتایا جائے کہ کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو "ہاں" سمجھتی رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا کہ نوٹیفکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہئے تھا، اس معاملے میں آرمی ریگولیشن 255 کے تحت ازسر نو تقرری کا نہیں البتہ توسیع کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ یہاںازسر نو تقرری کی جا رہی ہے، توسیع کی منظور ی پہلے صدرسے لینے کی بجائے کابینہ سے لی گئی، جس نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی، سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسارکیا کہ کیاقانون میں مدت ملازمت میں توسیع کے لئے کوئی ایسی شق موجود ہے، کیونکہ کابینہ اجلاس میں بھی توسیع سے متعلق وجوہات زیر بحث نہیں آئیں۔

جس کی وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا تھا جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توسیع کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے کابینہ سے لی گئی ہے، عدالت کوبتایا جائے کہ آرمی چیف کی توسیع کی مدت کس طرح متعین اورکس طرح یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہنگامی حالات تین سال تک رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ عدالت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کررہی ہے۔ 

بعدازاں عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے جنرل قمرجاوید باجوہ کوکیس میں باضابطہ فریق بنا لیا اور مزید سماعت آج بدھ کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے اپنا حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری پیش کی گئی جس کے مطابق وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پرجنرل قمرجاوید باجوہ کی دوبارہ تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ 

تاہم نوٹیفکیشن کے اجراءکے بعد غلطی کا احساس ہو نے پر وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی جنہوں نے 19 اگست کو ہی سمری کی منظوری دیدی تھی‘ عدالتی حکم کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا رہی ہے، حالانکہ علاقائی سیکورٹی سے نمٹنا کسی ایک افسر کی نہیں بلکہ بطور ادارہ پوری فوج کی ذمہ داری ہے، اور اگر علاقائی سیکورٹی کی صورتحال کومدت ملازمت میں توسیع کی وجہ مان لیا جائے تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس اہم ترین مقدمہ میں سامنے آنے والے نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ وفاقی کابینہ کے 25 میں سے 11 ارکان نے مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی تھی‘ اس طرح صدر کی منظوری کے بعد یہ معاملہ کابینہ میں پیش توکیا گیا لیکن کابینہ کی منظوری کے بعد سمری وزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی۔

اس حوالے سے اٹارنی جنرل کے مطابق سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا وفاقی حکومت کااختیار ہے، لیکن انہوں نے عدالت کو قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے یادوبارہ تعیناتی کی اجازت دی گئی ہو، بلکہ اس معاملے میں وزیر اعظم نے خود حکم جاری کرکے موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ہے، حالانکہ آرٹیکل 243 کے تحت اس معاملے میں صدرمملکت ہی مجاز اتھارٹی ہوتا ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے عدم پیروی کے باوجود اس مقدمہ کو مفاد عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے 184(4) کے تحت قابل سماعت قرار دے کراس کی سماعت کی۔

تازہ ترین