• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیارہ ماہ میں چیف جسٹس پاکستان کا پہلا از خود نوٹس

اسلام آباد (طارق بٹ) پاکستان کے اعلیٰ جج کی حیثیت سے گیارہ ماہ کی مدت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پہلا از خود نوٹس لیا ہے جو جنرل قمر جاوید باجوہ کے بطور چیف آف آرمی اسٹاف مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ہے جسے بدھ تک سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کردیا گیا ہے۔ اس سال 21 مارچ کو چیف جسٹس نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر اسد منیر کی جانب سے کی گئی خودکشی پر نوٹس لیا تھا لیکن اسے کھلی عدالت میں کبھی نہیں سنا گیا۔ انہو ں نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے منیر کے خلاف تحقیقات کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ بعد میں کیا ہوا کچھ معلوم نہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس سال 20 جنوری کو ملک کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے جسٹس کھوسہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض 24 دن پہلے آرٹیکل 183 (3) کے تحت اختیارات استعمال کئے ہیں۔ جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی جانب سے جاری کئے گئے حکم میں کہا گیا ہے کہ عدالت سے وابستہ شخص (ریاض حنیف راہی) نے اس کے سامنے ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست پیش کی ہے جس میں اس درخواست کو واپس لینے کی اجازت مانگی گئی ہے۔ درخواست گزار بذات خود پیش ہونے میں ناکام رہا اور ناہی اس کی جانب سے کوئی اور شخص پیش ہوا۔ موصول ہونے والی درخواست میں نا تو تاریخ ہے اور ناہی بیان حلفی موجود ہے۔ جسٹس کھوسہ کی مدت کے دوران ملک بھر میں شدید ہنگاموں کا باعث بننے والے مختلف سنگین واقعات پر از خود نوٹس لینے کیلئے متعدد عوامی مطالبات سامنے آئے تھے لیکن انہوں نے مزاحمت کی۔جب سانحہ ساہیوال ہوا تو اس وقت بھی ان سے متعدد بار مداخلت کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اعلیٰ جج کی حیثیت سے حلف لینے سے ایک دن پہلے جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ از خود نوٹسز لینے کے اختیار کا استعمال احتیاط سے اور قومی اہمیت کے حامل بڑے معاملات کے حوالے سے کیا جائے گا جہاں یا تو کوئی دوسرا مناسب یا موثر طریقہ دستیاب نہ ہو یا دستیاب آئینی یا قانونی طریقے غیر موثر ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلاء کو حقائق اور دلائل دینے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ از خود مقدمات کی بڑی تعداد دیگر درخواستوں کی کارروائیوں میں التواء کا باعث ہیں۔ جسٹس کھوسہ کے از خود نوٹسز لینے کی مزاحمت کے علاوہ مجموعی طور پر وکلاء برادری اس بنیاد پر اس کی شدت سے مخالف رہی ہے کہ متاثرہ فریقین کو اپیل کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے جیسا کہ اس طرح کے فیصلے اعلیٰ ترین عدلیہ کی جانب سے آتے ہیں اور انجام کو پہنچتے ہیں۔
تازہ ترین