• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی سائنس میں حکومتی کامیابی کےچار اشاریے مروج ہیں عوامی میزانیہ، معاشی میزانیہ ، سیاسی میزانیہ اور بین الاقوامی میزانیہ ۔ماضی میں مہنگائی کے نتیجہ میں عوامی بیانیہ یوں ہوتا تھا کہ دال سبزی کھالیں گے لیکن تبدیلی حکومت نے عوام سے پہلےدال پھر چینی چھینی اوراب ٹماٹر ادرک سمیت تمام سبزیاں دسترس سے باہر کرکے عوام کوخون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے۔پانی ، بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں ہیں۔حال تو یہ ہوگیا ہے کہ موجودہ حکومت کے زیرک وزراء،نمائندے کھلی عوامی کارنر میٹنگز اور جلسوں میں شریک ہی نہیں ہورہے ہیں کہ کہیں کوئی ناخوشگوار صورتحال ہی نہ پیدا ہوجائے۔ 

اگر بلدیاتی انتخابات ہو جاتے ہیں تو کارکردگی کی بنیاد پر موجودہ حکومت کو شکست فاش سے بچنا ناممکن ہوجائیگا ۔ سوشل میڈیا پر ٹماٹرمنترا تیزی سے وائرل ہورہا ہے جس پر کئی قسم کی میمز بن چکی ہیں کہ حکومت نے ٹماٹر اتنا مہنگا کردیا ہے کہ کوئی اس کو ٹماٹر مارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ کہیں ٹماٹر کو زیور اور کہیں ٹماٹر کو کرنسی بنا کر تنقیدی میمز زبان زد عام ہوتے چلے جارہے ہیں جس کی وجہ سے سوشل میڈیا جیسا طاقت ور پلیٹ فام بھی حکومت کے ہاتھوں سے پھسلتا جارہا ہے۔

عوامی میزانیہ میں حکومتی اکائونٹ کا بیلنس تیزی سے ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہےجس میں اضافہ کیلئے تسلسل سے عملی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو تحریک انصاف دیوالیہ ہوجائیگی ۔ وزیراعظم عمران خان سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی دو دفعہ ملاقات ہوئی ہے وزیراعظم نے عثمان بزدار کو پنجاب کی گڈ گورننس اور لوگوں کے بنیادی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایات دی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار عوامی مفادات کے ان احکامات پر کہاں تک عمل درآمد کرواتے ہیں ۔لوگ تبدیلی کے خواہاں ہے اب وزیراعلیٰ بزدار پنجاب کے اندر کہاں تک تبدیلیاں لائیں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

معاشی میزانیہ کے محاذ پر سٹیٹ بینک کے اقدامات ، شرح سود میں اضافہ اور بہتری کے دعوے عوام اس لئے مسترد کرتے دکھائی دے رہے کہ ان کا ذرہ بھر فائدہ انکی ذاتی زندگی تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے بیان مہنگائی کاکسانوں کو فائدہ ہورہا ہے وہ بھی تو ہمارے بھائی ہیں جیسی لایعنی منطق نے عوام پر حکومت کی سوجھ بوجھ مزید واضح کردی ہے۔سیاسی میزانیہ کے محاذ پر سیاست کے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دیا جارہا ہے ۔ہر کوئی اس کو اپنی مرضی کا زاویہ دینے کی کوششیں کررہا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا ختم ہوگیا وہ کیا لینے آئے تھے اور کیا لیکر گئے اس پر بحث کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے ۔حکومتی اتحادی سپیکر پنجاب پرویز الٰہی کے انٹرویوز اور بدلتے موقف اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کچھ توپس پردہ ہوا تھا جس کو انھوں نے پہلے غیر مرئی اشارے پر معمولی سا عریاں کیا اور بعداز اں اس کی پردہ پوشی کرنےکی ناکام کوشش کی ۔ایک بات طے ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بساط اقتدار کی بدر بانٹ کرنے والوں پر واضح کرچکے ہیں کہ انھیں اسمبلی سے باہر کرکے مناسب عمل نہیں کیا گیا اور یہ الٹی میٹم بھی دے چکے ہیں کہ آئندہ سیٹ اپ میں انھیں یک جنبش قلم مسترد نہیں کیا جانا چاہیے ۔ 

مولانا کے دھرنے کےعمل میں اپوزیشن کا طرز عمل طے شدہ دکھائی دیا جس کی بنیاد پر اس نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جسے اگرچہ حکومت نے نہ مانا اور نہ ہی قبول کیا ہے لیکن اس دھرنے سے حکومتی سیاسی بت میں مزید شکست و ریخت آئی ہے۔ دوسری طرف اس بیانیہ میں بھی شدت آئی ہے کہ سڑکوں کو بند کرنا مولانا کا غلط فیصلہ تھاجس کو عوامی پذیرائی نہ ملنا تھی اور نہ ملی جس نے انکے دھرنے کے کمائے اکائونٹ بیلنس کو شدید ضرب پہنچائی۔ حکومت مولانا کے دھرنے کو مذہب کارڈ کا استعمال قرار دےرہی ہے جبکہ اپوزیشن کا بیانیہ ہے کہ جدا ہو ا دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ سربراہ حکومت مستقل منتخب حاضرین کے جلسوں میں اپنےعہدہ کے تقاضوں کے برعکس صرف جلال ہی برسا رہے ہیں۔ 

مولانا پر لفظی گولہ باری کرنا ، بلاول کی نقلیں اتار نا ہی کم نہ تھا بلکہ انھوں نے اچانک ہی نواز شریف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اول تا اختتام انکے بیرون ملک جانے کے عمل کو ہی مشکوک بنا کر نہایت ہی عجیب وغریب سوچ اور صورتحال پیدا کردی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے پلیٹ لیٹس کا نام پہلی بار سننے کا اعتراف کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر مرض اور مریض بارےایک ایسی بحث شروع ہوچکی ہےجس کا اختتام اس وقت ہی ہوتا نظر آرہا ہے جب کوئی اس سے بڑا بیان غیر حقیقی جاری ہوگا۔بین الاقوامی میزانیہ تو ہے کہ اس بارے حکومتی بیانیہ غیر عملیت پسندی پر تج ہوچکا ہے۔ 

مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ کئی ماہ سے داخل دفتر ہوچکا ہےاس موضوع پر پہلے چند ہفتوں برپا رہنے والی تیزی چائے کے کپ میں طوفان کی مانند ثابت ہوئی جس کی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔ 23 نومبربروز ہفتہ کوگورنر ہائوس لاہور میں میوزک کنسرٹ منعقد کرنے کا اشتہار شائع کیا گیا جس میں بقول شاعر بین الاقوامی بینڈ نےکشمیر کے نہتے اور معصوم عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو بین الاقوامی سطح پر نئے انداز میں اجاگر کرنا اور اظہار یکجہتی کشمیر کرنا تھا ۔

جیسے ہی یہ اشتہار شائع سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہواجنگل کی آگ کی طرح پھیل گیااوراتنی شدید تنقید ہوئی کہ پروگرام منسوخ ہی کرنا پڑا ۔ اشتہارکے مندرجات اور مقاصد نے اجازت مانگنے اور اجازت دینے والوں کے تدبر اور سیاسی بصیرت پر سنجیدہ اور بڑے سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں؟

تازہ ترین
تازہ ترین