• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پڑھنے والوں کے نام! وہ جو اصحابِ طبل و عِلم کے دروں پر کتاب اور قلم کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے، وہ معصوم جو بھولپن میں، وہاں اپنے ننھے چراغوں کی لَو کی لگن، لے کر پہنچے، جہاں بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے‘‘۔

یہ تھا فیض کے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے انتساب میں نونہالانِ وطن کا نوحہ، جو آج بھی ’’نوجوانوں کے انبوہِ کثیر‘‘ کی حالتِ زار پہ نوحہ کناں۔ نوجوان آبادی کی کثرت پہ بہت شادیانے بجائے جاتے ہیں، لیکن اُن کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے بارے میں کسی کو کوئی فکر ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق اگر ہماری قومی آمدنی کا چھ فیصد تعلیم و ہنرمندی پہ بامقصد خرچ نہ کیا گیا تو یہی نوجوان اُبال وبالِ جان بن سکتا ہے اور بن رہا ہے۔

جس ملک میں آبادی کی شرحِ افزائش 2.4 فیصد ہو اور تعلیم پہ خرچ بھی اُتنا ہی (2.4 فیصد)، وہاں سو فیصد خواندگی کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں شرح خواندگی 57 فیصد ہے جبکہ 55 فیصد لڑکیاں ناخواندہ ہیں یہ شرح جنوبی ایشیا میں سب سے بدتر ہے۔

اگر دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں تو دو کروڑ چالیس لاکھ اسکولوں سے باہر دربدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔

جو 28 لاکھ سیکنڈری لیول یا پھر 19 لاکھ گریجویٹ لیول پہ ہیں وہاں بھاری فیسوں کے عوض تعلیم فقط حصولِ ڈگری کا وسیلہ ہے کہ علم و ہنر، تخلیق و تحقیق کا حصول۔

رہی یونیورسٹیاں جو پڑھے لکھے جاہل پیدا کرنے کی فیکٹریاں بن کے رہ گئی ہیں، اُن کی 150 ارب روپے کی ضروریات کے لیے 72 ارب روپے کی فیسوں کے باوجود حکومت خسارہ پورا کرنے پہ مائل نہیں اور ہائر ایجوکیشن کو 20 ارب روپے کی کٹوتی کا سامنا ہے۔ لیکن مروجہ نظامِ تعلیم اگر علم و ہنرمندی کے بجائے دولے شاہ کے چوہے ہی پیدا کرتا رہے گا تو اس کو اسی طرح رکھنے کا کیا فائدہ۔

دعوے تو بہت لوگ ’’ایک پاکستان، ایک نظامِ تعلیم‘‘ کے کرتے ہیں اور طبقاتی نظامِ تعلیم کے خاتمے کے نعرے بلند کرتے ہیں، لیکن نہ اس کی سمجھ ہے اور نہ کچھ کرنے کی توفیق۔

تحریکِ انصاف کی حکومت نے بھی یکساں نظامِ تعلیم کا دعویٰ کیا اور یہ چلی ہے نجی اور پبلک تعلیم کو باہم ضم کرنے اور یکساں نصاب کا ایسا بھوت سوار ہے کہ پاکستان کے کثرتی حالات اور متنوع علمی تقاضوں میں تعلیم کی یکسانیت (Regimentation) کو کون قبول کرے گا۔

بجائے اس کے کہ ہمارے دوست شفقت محمود پبلک درسگاہوں کے معیار کو بہتر بناتے، وہ چلے ہیں نجی انگریزی اسکولوں کو پبلک اسکولوں جیسا بھٹیار خانہ بنانے۔ ہمارے اسلام پسند دوست بھی ’’غیر طبقاتی نظامِ تعلیم‘‘ لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن چلا وہ رہے ہیں نفع بخش بڑے تعلیمی سلسلے۔

اس میں یقیناً مدارس شامل نہیں جہاں نظریاتی تعلیم کے نام پر وہ دینیات اور دُنیاوی تعلیم کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کے خلاف ہیں اور تحقیق و جستجو کی کوئی گنجائش نہیں۔

رہے ہمارے روشن خیال، وہ بھی طبقاتی نظامِ تعلیم کے ایک طبقاتی نظام میں خاتمے کی بات کرتے ہیں۔

بائیں بازو والے یقیناً تعلیم کو کاروبار بنانے کے سخت خلاف ہیں اور وہ درسگاہوں میں رجعتی بالادستی کے خلاف ہیں، لیکن وہ خود بھی کثرت کے بجائے اپنی فکری یکتائی (Monist View) پہ مصر ہیں۔ حالانکہ اس وقت سوال جامعات اور درسگاہوں کی فکری کُھل اور دنیاوی تعلیم کو دینیات سے علیحدہ کرنے کا ہے یا پھر تعلیم، تحقیق، تخلیق، اعلیٰ تربیت اور روزگار کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ حق انجمن سازی کے حق کا ہے۔

ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم مابعد نوآبادیاتی دور میں نوآبادیاتی زمانے کی روشن خیالی اور روحِ عصر کے تقاضوں سے بھی محروم ہے۔ ہم اسے تین حصوں میں تقسیم کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اوّل: ’’انگلش ایجوکیشن ایکٹ 1835‘‘ اور لارڈ میکالے کے ’’منٹ آن انڈین ایجوکیشن‘‘ کے مطابق جدید تعلیم بذریعہ انگریزی ضروری قرار دی گئی اور سنسکرت اور فارسی ملک بدر ہوئی۔

بعد ازاں ’’آگو قوم‘‘ کی تھیوری آئی کہ پسماندہ ممالک امریکی خصائل کو اپنا کر ویسے ہی ترقی کر سکتے ہیں جیسا کہ امریکہ۔ گو کہ ہمارے نجی انگریزی اسکول اور یونیورسٹیاں برطانوی روایت پہ گامزن ہیں، لیکن یہ امریکی پیمانوں پہ کارپوریٹ دُنیا کے اہلکار پیدا کرنے اور ’’دیسی گورے‘‘ کلچر کو فروغ دینے کی کوشش میں ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ نفع خوری کے لیے فقط ڈگریاں بیچنے کا کام زیادہ اور حقیقی سائنسی علم و فن کی پیداوار پہ توجہ کم ہے۔

دوم: پبلک سیکٹر کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جو نظریاتی طور پر سرسیّد احمد خان کے اینگلو اورینٹل کالج (1875) کی روایت پہ بھونڈے طریقے سے عمل پیرا ہیں۔ سرسیّد نے تو ’’جدیدیت‘‘ اور ’’اسلامی عملیت پسندی‘‘ کا امتزاج پیدا کیا تھا، لیکن یہاں دینیات ہی تمام تر علوم کا سرچشمہ اور دُنیاوی علوم فقط مذہبی انحراف کے مترادف بن کے رہ گئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں یونیورسٹیوں کے طلبہ مختلف مسائل پہ احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

وہ شاید جہالت گاہوں اور تعلیمی بندی خانوں میں جاری فکری نسل کُشی اور مستقبل بارے بے یقینی کے ہاتھوں پریشان ہو کر باہر نکل رہے ہیں۔ نہ حقِ اظہار، نہ حقِ تحقیق و تخلیق، نہ حقِ انجمن سازی ہے نہ نظامِ تعلیم میں اُن کی فعال شرکت۔ بات ایشیا کے سُرخ یا سبز ہونے کے فروعی نعرہ بازی کی نہیں، ترقی اور رجعت کے افکار میں فکری مجادلے کی ہے۔

یہ معاملہ فقط طلبہ کے حقوق کا ہی نہیں، بلکہ درسگاہوں پہ مسلط فکری جمود کو ختم کرنے اور تعلیم کو عالمی معیار اور معروضی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا بھی ہے۔

جب تک دینیات کی تعلیم (جو لازمی ہے) اور دُنیاوی علوم کو علیحدہ نہیں کیا جاتا تو درسگاہوں پہ مسلط فکری جمود ٹوٹنے والا نہیں۔ 29 نومبر کو جب پاکستان بھر میں یونیورسٹیوں کے طلبہ اسٹوڈنٹس مارچ کے لیے نکلیں گے تو اُن کے مطالبات میں طلبہ یونین کی بحالی، سیکنڈری تک مفت اور اعلیٰ تعلیم، درسگاہوں میں کشادگی، نظامِ تعلیم میں انقلابی اصلاحات، تعلیم کے لیے قومی آمدنی کا چھ فیصد خرچ کرنے، خواندگی کو بڑھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ یہ نوجوان ہماری بھرپور حمایت کے حقدار ہیں۔

اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے

لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے

تازہ ترین