• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے بیورو کریسی میں اعلیٰ ترین سطح پر ترقیوں اور تبادلوں کے احکامات جاری کرتے ہوئے، گریڈ 21کے 14افسروں کو گریڈ 22میں ترقی دے دی ہے، پنجاب میں 3 ایڈیشنل چیف سیکریٹریز ،18ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز، 27سیکریٹریز، 19ڈی پی اوز، 6 کمشنرز اور 38ڈپٹی کمشنرز سمیت لگ بھگ 129افسران کو تبدیل کیا گیا ہے۔ دنیا میں آغاز تمدن کے ساتھ ہی معاشرتی و ریاستی امور چلانے کے لئے عمال مقرر کی ضرورت کے تحت ان کی تقرری کا عمل شروع ہو گیا۔ ہمارے ہاں اس کی جدید صورت، جسے بیورو کریسی کہا جاتا ہے انگریز کی دین ہے، جو اس نے فرانس سےمستعار لیا اور چند تبدیلیوں کے ساتھ اپنی نوآبادیات میں رائج کر دیا۔ طرز حکومت کیسا ہی ہو قانون نافذ کرنے اور اس پر عملدآمد کرنے کی ذمہ داری بیورو کریسی ہی کی ہوتی ہے، چنانچہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ دراصل ریاستی امور بیوروکریسی ہی چلاتی ہے، نوکر شاہی کی اصطلاح بھی شاید اسی ضمن میں وضع ہوئی ۔ بہرکیف یہ امر ناقابل تردید ہے کہ ادارے کسی بھی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا بنیادی کردار ہوتے ہیں اورانکی باگ ڈور بیورو کریسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں بیورو کریسی اور حکومت میں ہم آہنگی کا فقدان نظر آیا تو اس کی وجہ نیب کا خوف بتایا گیا، وزیراعظم اس پر خود آگے بڑھے اور بیورو کریسی سے بات کی لیکن حالات معمول پر نہ آ سکے، خاص طور پر پنجاب کے معاملات پیچیدہ ہوتے چلے گئے اس تناظر میں اگر کسی کی اہلیت سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے ترقی دے کر کوئی ذمہ داری دی گئی ہے یا کسی کا تبادلہ کیا گیا ہے تو یہ حکومت کا آئینی حق ہے، جو اس نے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا اور یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ملکی حالات کے تناظر میں یہ سب کا فرض ہے کہ مل کر ملک کو مشکلات سے نکالیں۔

تازہ ترین