• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے سوچا تھا کہ موجودہ حکومت کے آتے ہی بہت سے شعبے بدل جائیں گے، تبدیلی صاف نظر آئے گی۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم پاکستان کھیلوں کی دنیا میں بہت آگے نکل جائے گا مگر موجودہ حکومت کھیلوں کا کیا کرتی، ایک بحران سے نکلتی ہے تو دوسرا بحران سامنے ہوتا ہے شاید منیر نیازی نے موجودہ حکومت ہی کے لئے کہا تھا کہ؎

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

ایک کروڑ نوکریاں دینے والے اسد عمر پھر سے میدان میں آ گئے ہیں، پچاس لاکھ گھروں کا پتا نہیں ابھی تک کیا بنا ہے۔ 

فیصل واوڈا کے دعوے حقیقت سے کہیں دور چلے گئے ہیں، عدالتی معاملات میں حکومت نے جو پھرتیاں دکھائی ہیں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ 

رہ گئے کھیل تو قومی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، باقی کھیلوں کو سمجھنے کے لئے نومبر کے آخری عشرے میں ہونے والا ایک الیکشن ہی کافی ہے۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا یہ الیکشن جسے ملک بھر کی فیڈریشنز اور کھلاڑی سلیکشن قرار دے رہے ہیں، اس سلیکشن نما الیکشن میں 25سے زائد عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ ایسوسی ایشن کے صدر خیر سے پانچویں بار اور سیکرٹری تیسری بار منتخب ہوئے ہیں حالانکہ پاکستان کی قومی سپورٹس پالیسی 2005پابند کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ایک عہدے پر دو سے زائد مرتبہ منتخب نہیں ہو سکتا۔ 

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی بھی اس حوالے سے متفق ہے مگر اولمپک ایسوسی ایشن کے ’’کامیاب ترین‘‘ صدر نے حکومت، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو غیر اہم سمجھتے ہوئے اپنی مرضی مسلط کی ہے۔ 

کھیلوں کی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اس دیدہ دلیری کو حیرت سے دیکھ رہی ہیں۔ پاکستان کی سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی، سینئر پارلیمنٹرین اور موجودہ وزیر کو زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب اولمپک ایسوسی ایشن نے خود ہی آئین میں ترمیم کر کے صدرِ مملکت کو بھی پیٹرن انچیف نہ رہنے دیا۔ 

قائداعظمؒ اولمپک ایسوسی ایشن کے پہلے پیٹرن انچیف تھے، بعد میں آنے والے گورنر جنرل اور صدور اس کے پیٹرن انچیف بنتے رہے، موجودہ صدر کو اس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس سارے کام کا سہرا اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر کے سر ہے۔ یہ سب کچھ ایک کھلاڑی وزیراعظم کے عہد میں ہو رہا ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے گورکھ دھندے میں عجیب جادو نگری ہے کہ وہاں مخصوص لابی ہی جیتتی ہے۔ 

اب تو صورتحال یہ ہے کہ اگر ملک کا کھلاڑی وزیراعظم بھی اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر کا الیکشن لڑے تو ہار جائے گا، اسے خوب سمجھ آ جائے گی کہ الیکشن اور سلیکشن میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ اولمپک ایسوسی ایشن نے کھیلوں کی فیڈریشنز کے ساتھ مل کر ایسا چکر چلایا ہوا ہے کہ الیکشن، سلیکشن بن کے رہ جاتا ہے۔

صاحبو! 2004سے مسلسل منتخب ہونے والے عہدیداروں میں پاکستان چار اولمپکس گیمز میں شریک ہوا مگر قسمت نے چاروں مرتبہ پاکستان کا ساتھ نہ دیا، کوئی میڈل پاکستان کے حصے میں نہ آ سکا، اب 2020 میں ٹوکیو اولمپکس میں بھی پاکستانی دستہ آسیب کے سائے میں شرکت کرے گا، خیر کی توقع نہیں ہے۔

 پاکستانی کھیل پسپائی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت اس پسپائی پر خاموش ہے، پارلیمنٹ بھی چپ، سپریم کورٹ کی نظر شاید اِدھر نہیں پڑی۔ رہے کھلاڑی تو وہ بےچارے مجبور ہیں اگر ووٹ نہ دیں تو ایکریڈیشن سے محروم ہو جاتے ہیں۔ 

سسٹم کھیلوں کو بھی جواب دیتا جا رہا ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر جنرل (ر) عارف حسن ہیں اگر ان کی کامیابیوں کو دیکھیں تو پھر اٹارنی جنرل آف پاکستان کا جملہ بار بار یاد آتا ہے کہ’’ ...ایسے لوگ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے....‘‘

خواتین و حضرات! ہمارے وزیراعظم عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ ان کا مقابلہ مافیا سے ہے، ویسے ہمارے ہاں زندگی کے تمام شعبوں میں مافیاز کا راج ہے۔ اب تو شاید ہی کوئی شعبہ بچا ہو۔ سیاست میں الگ مافیا ہے تو بزنس میں الگ۔ صحت و تعلیم اور وکالت کو بھی مافیاز نے نہیں بخشا، زمینوں میں تو پہلے ہی مافیا کا کام۔ کس کس شعبے کا نام لوں۔ 

کھیلوں کا قصہ بیان کر دیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم ہر شعبے میں پستی کی طرف جا رہے ہیں، ایک مہنگائی ہے جسے ہر عہد میں عروج حاصل ہوا ہے اور اس تبدیلی والے موسم میں تو مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ابھی یہ سفر جاری ہے۔

مجھے برادر عزیز وصی شاہ نے یورپ میں ہونے والے مشاعروں کا شیڈول بھیج دیا ہے۔ یہ سخت شیڈول پڑھنے کے بعد میں وصی شاہ کا نام عالمی شاہ رکھ رہا ہوں۔ شاہ صاحب کے مشاعرے سرحدوں سے آزاد ہیں۔ 

آزادی سے یاد آیا کہ جیلوں میں بند پاکستانی سیاستدانوں کے لئے اچھی خبر ہے، بہت جلد تمام سیاستدانوں کو جیلوں سے رہا کر دیا جائے گا مگر انہیں چپ کا روزہ رکھنا پڑے گا جیسا کہ پہلے رہا کئے گئے سیاستدانوں نے رکھا ہوا ہے۔ بس یہی این آر او ہے۔ سید یونس اعجاز کے چند اشعار سنتے جایئے کہ؎

دل شکستہ ہوں تو غم خوار کہاں لے جائیں

زندگی بھر کا یہ آزار کہاں لے جائیں

تو بھی دب جائے گا گرتی ہوئی دیوار تلے

تجھ کو اے سایۂ دیوار کہاں لے جائیں

گردشیں حکم تو لائی ہیں نئی ہجرت کا

اب اٹھا کر نئے گھر بار کہاں لے جائیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین