• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ…شہزادعلی
برطانیہ میں جوں جوں انتخابی تاریخ قریب آتی جارہی ہے جیر می کوربن ٹوریز اور لیبر کے درمیان مقبولیت کے پائے جانے والے تفاوت کو کم کرتے جا رہے ہیں۔ لیبر پارٹی بورس جانسن کو سخت وقت دینے کے موڈ میں معلوم ہوتی ہے ۔ یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ لیبر کی طرف سے تازہ لہر ان رائے دہندگان پر اثر انداز ہو رہی ہے جو برطانیہ کے یورپ کے اندر رہنے کے خواہاں ہیں ۔ آن لائن ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ تازہ ترین پول کے مطابق لیبر صرف 9 پوائینٹس ٹوری سے پیچھے ہے لیبر کی مقبولیت 33 اور ٹوریز کی 42 رپورٹ کی گئی ہے۔صرف دو ہفتے میں جیر می کوربن کے لیے حمایت میں 5 گنا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ یہ سروے آئی ٹی وی کے لیے کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لب ڈیم کی حمایت سکڑ گئی ہے اور ان کے نصف برطانیہ کے ای یومیں رہنے کے حمایتی remainers لیبر کا رخ کر گئے ہیں ایک اور جائزہ میں ہرچندکہ پول میں وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹیو پارٹی کو ابھی بھی جیر می کوربن کی لیبر پر برتری حاصل ہے 12 فیصد کا فرق ہے لیکن لیبر پارٹی یہ فرق بتدریج کم کرتی محسوس ہو رہی ہے ، ابھی چند روز باقی ہیں اور ووٹرز کا رحجان مزید شفٹ بھی ہوسکتا ہے. بی بی سی سنئیر سیاسی جائزہ کار پیٹر بارن یس نے لکھا ہے کہ لیبر ہارٹی بدستور اوپر کی طرف جارہی ہے تاہم یہ زیادہ تر لبرل ڈیموکریٹ کو ضعف پہنچا کر ہو رہا ہے۔اور اگر یہ رحجان جاری رہا تو مزید ایک اور انتخاب ایسا قرار دیا جائے گا جہاں پر پھر دو بڑی پارٹیاں عمومی طور پر مجوعی الیکٹورل ووٹرز کا شئیر حاصل کریں گی ۔ تاہم بدستور مزید موو کی ضرورت ہے جس سے دونوں پارٹیاں کنزرویٹیو اور لیبر 2017 کی طرح 84 فیصد شئیر اپنے درمیان لے سکی تھیں۔ آخر یہ گیپ کیسے کم ہو رہا ہے؟ مبصرین اس کی وجہ لیبر کے پرکشش مینی فیسٹو یعنی انتخابی منشور کو قرار دے رہے ہیں۔ تو پھر آئیے ذرا طاہرانہ نظر ڈالیں کہ اس منشور کے کون سے اہم نقاط ہیں جو عام لوگوں کو حزب مخالف کی اس بڑی جماعت کی طرف راغب کر رہے ہیں حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور بڑے کاروباری اور کئی مقتدر قوتیں عام ووٹرز کو لیبر لیڈر جیر می کوربن کو ڈاؤننگ سٹریٹ سے دور رکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہیں ۔ لیبر منشور کے اہم نقاط یہ ہیں ایک گرین صنعتی انقلاب ، پبلک سروسز کی تعمیر نو، غربت اور عدم مساوات سے نبٹنا، بریگزٹ پر آخری آواز، ایک نیا انٹرنیشنل ازم، رسائی والا منشور شامل ہیں۔ اس طرح کے پرکشش اور مسہور کن الفاظ ہیں جو کئی ووٹرز کو اپنی طرف کھنچ رہے ہیں:یہ الیکشن ہمارے ملک کو کئی نسلوں تک بنانے کا کام کرے گا، یہ آپ کے کیے موقع ہے کہ اس ملک کو ٹرانسفارم تبدیل کریں جس سے یہ صرف چند ایک نہیں ہم سب کے لئےکام کرے۔لیبر کا دعویٰ ہے کہ اس کا منشور نہایت انقلابی اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے جس کا محور مرکزی خیال ملک کے عوام ہیں ۔ یہ ہمارے لیے چانس ہے کہ ماحولیاتی ایمرجنسی سے نبٹنے، خوراک کے لیے متلاشی برطانویوں کے لیے نئی معاشی اقتصادی پالیسی لیبر کو ووٹ دے کر رقم کی جائے۔ یہ انتخاب ہمیں یہ موقع مہیا کر رہا ہے کہ افورڈ ایبل قابل استطاعت مکانات ملین کی تعداد میں تعمیر کیے جائیں۔ برطانیہ کے ہر ریجن، ہر خطے میں ملازمتیں مہیا کی جائیں لیبر برطانیہ کی تعمیر نو کا عزم کرتی ہے۔ کالم میں چونکہ طوالت کی گنجائش نہیں ہوتی قارئین کے لیے صرف ایک لیبر اعلان مثال کے لیے پیش خدمت ہے جس سے یہ واضح ہو تا ہے کہ لیبر پارٹی اس طرح کے اعلانات اور انتخابی وعدے کر رہی ہے جس کو عام طبقات اپنے مسائل اور ماحول سے قریب محسوس کرتے ہیں ، بالفرض لیبر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ریل کے کرایوں میں 33 فیصد کمی لائے گی۔ اگر 12 دسمبر کو الیکشن جیت گئی تو جزو وقتی کارکنوں کے لیے ٹکٹ نظام کو سادہ بنا دے گی لیبر پارٹی سولہ سال سے کم عمر افرادکے لیے ٹرین کا سفر مفت کرنا چاہتی ہے اور اور ایک مرکزی آن لائن پورٹیل قائم کرکے بغیر بکنگ فیس کو یقینی بنانا چاہتی ہے یہ پرپوزل ایک وسیع پلان کا حصہ ہے جس کے تحت ریلوے کو نظام کو نیشنلائزکرنا مقصود ہے۔ اب یہ ریلوے سے متعلق اعلان ہی کتنا موثر ہے۔ پس تحریر : ادھر لوٹن میں جہاں قومی سطح پر پارٹیوں کے منشور کے نقاط بھی زیر بحث ہیں ساتھ ہی اس حوالے سے بھی بعض بحٹ شروع ہے کہ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینا فائدہ مند ہے یا بطور کمیونٹی نقصان دہ ۔ چونکہ یہاں لوٹن کے دونوں حلقوں لوٹن ساؤتھ اور لوٹن نارتھ سے اپنی کمیونٹی سے دو رہنما بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ ماضی میں لیبر پارٹی کے زیر کنٹرول لوٹن بارو کونسل سے پہلے پاکستانی کشمیری مئیر کا اعزاز حاصل کرنے والے اور ڈپٹی لیڈر کے عہدے پر بھی فائز رہنے والے چوہدری محمد اشرف لوٹن ساؤتھ سے آزاد امیدوار ہیں جبکہ نوجوان کشمیری پاکستانی ڈاکٹر محمد یاسین رحمان لوٹن نارتھ سے آزاد امیدوار ہیں ۔ اب آزاد امیدواروں کے حمایتی ایک مکتب فکر کا کہنا ہے کہ آزاد امیدوار چونکہ پارٹیوں کے منشور اور نظم و ضبط کے تابع نہیں ہوتے اس لیے وہ کسی بھی کمیونٹی کے ایشوز یا مخصوص کمیونٹیز کو متاثر کرنے والے معاملات پر کمیونٹیز کی بہتر ترجمانی کر سکتے ہیں جبکہ جو لوگ پارٹی سیاست کرتے ہیں انہیں مصلحتا” اہم ترین امور پر بھی خاموشی یا پارٹی لائن فالو کرنا پڑتی ہے جس کی متعدد مثالیں دی جارہی ہیں کئی جگہوں پر لوکل اور نیشنل سطح پر بھی مسائل ایسے پیدا ہوئے جہاں پر نو ٹ کیا گیا کہ پارٹیوں کی پابندیوں کے باعث سیاسی زعماء کمیونٹی ترجمانی ادا کرنے سے معذور پائے گئے اس حوالے چوہدری محمد اشرف کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر لوٹن میں بن کے ایشوز پر کمیونٹی کے متعدد لیبر کونسلرز تھے جنہوں نے پارٹی لائن کو فالو کیا جبکہ بن شیڈول تبدیلی سے قصبہ خاص طور پر ایشیائی بڑے گھرانے متاثر ہوئے جبکہ انہوں (چوہدری محمد اشرف جو آزاد کونسلر تھے ) نے کمیونٹی کی ترجمانی کی ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد امور میں تمام کمیونٹیز کو خدمات بہم پہنچائی ہیں ۔ جبکہ مختلف ہسٹنگز میں ڈاکٹر محمد یاسین رحمان بھی آزاد امیدوار کے فوائد باور کرا رہے ہیں ۔ دوسری جانب آزاکشمیر کی طلبہ سیاست میں ماضی میں پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے متحرک کردار ادا کرنے والے سید ابرار حسین گیلانی کی رائے ہے کہ وہ لوٹن سے آزاد امیدواروں سے قطع نظر برطانیہ میں عمومی طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ کئی سالوں کی محنت اور جدوجہد نے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانی/کشمیری کمیونٹی کو بلخصوص قومی سیاست میں ایک باوقار مقام عطا کیا ہے بر طانیہ کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ہماری کمیونٹی میں سے متعدد افراد کو ممبران پارلیمنٹ ، لارڈز ، مئیرز اور کونسلرز بننے کے مواقع مہیا کیے اور قومی سیاسی دھارے میں رہ کر اور ان بڑی پارٹیوں کے اندر کام کرنے کے باعث اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف کام کرنے کے مواقع میسر آئے ۔ بعض قصبوں اور شہروں میں خاص طور پر لیبر پارٹی نے کونسلوں میں پاکستانی اور کشمیری نژاد مسلمانوں کو بار بار اقتدار میں حصے دار رکھا جس سے قومی دھارے میں شمولیت اور ملک گیر کنٹری بیوشن کا مضبوط تاثر قائم ہوا جسکا آنے والی نسلوں کی بقاء سلامتی اور ترقی سے تعلق تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر اپروچ یہی ہے کہ کمیونٹی قومی جماعتوں سے جڑی رہے اور مثبت انداز میں الیکشن مہم میں بھرپور طریقے سے شامل ہو قومی سطح کی پارٹیوں سے ہٹ کر مسلمان ایک محدود دائرے تک محدود ہوجائیں گے۔ جبکہ کئی متعدد دیگر شخصیات اسی سوچ کی حامل ہیں کہ کمیونٹی کسی نہ کسی قومی جماعت کے اندر وزن رکھے اس میں ہی اجتماعی مفاد پوشیدہ ہے ۔ البتہ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ لوٹن میں انتخابی مہم بڑے دلچسپ طور پر آگے بڑھ رہی ہے ۔ یہ بھی خیال رہے کہ کافی مدت سے لوٹن ساؤتھ اور لوٹن نارتھ دونوں لیبر پارٹی کی محفوظ نشستیں چلی آرہی ہیں ۔ پاکستانی کشمیری کمیونٹی روایتی طور پر لیبر پارٹی سے زیادہ منسلک رہی ہے۔ لوٹن لیبر ایگزیکٹیو کونسلر ریچل ہوپکنز لوٹن ساؤتھ سے اور سارہ اووین لوٹن نارتھ سے لیبر امیدوار ہیں ۔ بیڈفورڈ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری پرویز اختر بھی لوٹن ساؤتھ سے کنزرویٹیو کے امیدوار ہیں ۔ ساؤتھ سے گزشتہ الیکشن میں لیبر کے ٹکٹ پر گیون شوکر جیتے تھے مگر بریگزٹ کا جو گنجلک مسئلہ پیدا ہوا اس تناظر میں وہ لیبر سے مستعفی ہوگئے اور اب وہ بھی میدان میں ہیں ۔ گیون شوکر چونکہ واضح remainer برطانیہ کے یورپ میں رہنے کے حمایتی ہیں اس لیے لبرل ڈیموکریٹ اس ایک ایشو پر ان کی حمایت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
تازہ ترین