• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد شریف بقا۔۔لندن
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمۃ کی شخصیت، ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ان کے مرتبہ و مقام کے بارے میں بے شمار اپنوں اور غیروں نے اپنے اپنے مخصوص نظریات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے سیاسی افکار اور ان کے سیاسی کردار کا تعین کرنے کیلئے ہر ایک نے اپنے معیار حسن و قبح کو اختیار کرتے ہوئے اپنا فیصلہ دیا ہے۔ بہت کم لوگوں نے انصاف اور اعتدال کی راہ پر چل کر انکی تاریخ ساز مساعی کی حقیقت کو پایاہے۔ اس مضمون میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ قائداعظمؒ نے خود اپنے سیاسی مسلک کے مختلف بنیادی پہلوئوں کو کس نظر سے دیکھا ہے اور کس طرح اپنی جاذب اور بلند قامت شخصیت کو بے نقاب کیا ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی کوئی انسان شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنی تحریر میں اپنی ذات کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔ اس لحاظ سے اس کی تحریر اس کی ذہنی کیفیات اور قلبی واردات کی آئینہ دار بن جایا کرتی ہے۔ قائداعظمؒ کے مختلف بیانات، پیغامات اور تقاریر کے پردے میں چھپی ہوئی ذات ہماری نگاہوں کے سامنے یوں نمایاں ہوجاتی ہے کہ ہمیں انکے سیاسی موقف سے کافی حد تک آگاہی ہو جاتی ہے۔ آیئے ہم دیکھیں کہ انہوں نے اپنی ملت ساز سرگرمیوں کے بارے میں خود کیا کہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی اس عظیم المرتبت سیاسی شخصیات کی نمایاں ترین خصوصیت اسلامیان ہند کی فلاح و بہبود اور انکی آزادی کے ضمن میں انتھک کوشش تھی۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے حصول آزادی پاکستان کا جو انقلاب آفرین نعرہ لگایا تھا وہ ان کی مسلسل جدوجہد اور بصیرت افروز قیادت کے باعث آخر کار نتیجہ خیز ثابت ہوگیا۔ وہ اپنی اس قابل تحسین سعی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل آپ کیساتھ ہے اور میں مسلمانوں کی فلاح و ترقی کیلئے پوری پوری کوشش کر رہا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنے موجودہ اچھے کام کو جاری و ساری رکھو گے۔‘‘ (پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں صدارتی خطبہ 2مارچ1941ء)۔ ان کی پُرخلوس اور دلکش شخصیت اور انکی حق گوئی و بے باکی سے مسلمان بخوبی آگاہ ہوکر ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ بانی پاکستان کے الفاظ انکے دلوں کی آواز تھے۔ وہ اپنے اس ہمدرد، مخلص اور سچے لیڈر کے گرد اس طرح جمع ہوگئے تھے جس طرح پروانے شمع کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں۔ قائداعظمؒ کو بھی ان کی دلی محبت اور عقیدت کا پورا پورا احساس تھا جس کا انہوں نے کئی مواقع پر اظہار بھی کیا ہے۔محمد علی جناحؒ کی ذات کی ایک اور قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ وہ امراء، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی زر پرستانہ ذہنیت کے شاکی اور غریب مسلمانوں کے پُرخلوص تعاون اور ملت دوستی کے مداح تھے۔ تحریک پاکستان میں عام مسلمانوں نے بہت زیادہ ایثار و تعاون کا ثبوت دیتے ہوئے اسے مقبول اور کامیاب بنایا تھا۔ غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنے کے باوجود انہوں نے بڑھ چڑھ کر چندہ دیا جس کا اعتراف کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اپنی ایک تقریر میں یوں کہا ’’مجھے دو دو اور چار چار آنے کے منی آرڈر بھی ملے ہیں۔ بعض غریب مسلمان کہتے ہیں کہ غربت کی وجہ سے ہم روپیہ دینے سے قاصر ہیں تاہم ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں انکی اتنی چھوٹی رقوم نے امیر آدمی کے لاکھوں کی نسبت مجھے زیادہ متاثر کیا ہے۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی یونین، علی گڑھ کے اجلاس میں تقریر، 2نومبر1942ء) پاکستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے حضرات اس امر سے بخوبی آشنا ہیں کہ دو قومی نظریہ تحریک پاکستان کی اساس کا درجہ رکھتا ہے۔ قائداعظمؒ اسلامیان ہند کو اقلیت تصور کرنے کے زبردست مخالف تھے کیونکہ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو دو الگ الگ قومیں خیال کرتے تھے۔ وہ کسی طرح بھی اس بات کو گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو ان پر حکمرانی کریں۔ اس نقطہ نگاہ سے وہ ہندوراج کے قیام کو مسلمانوں کی تہذیب، ثقافت، مذہبی اقدار اور سیاسی تشخص کے لئے بہت بڑا خطرہ خیال کرتے تھے۔ وہ اس بات کو بھانپتے ہوئے پوری شدت کے ساتھ ہندو راج کی مخالفت کرتے رہے۔ انکی یہ ثابت قدمی، عزم راسخ کی طاقت اور ان کی مسلسل جدوجہد آخرکار قیام پاکستان پر منتج ہوئی۔ ان کے مندرجہ ذیل الفاظ سے یہ پتہ چل جائیگا کہ انہیں ہندوراج سے کس قدر نفرت تھی۔
"...I am not going, as long as there is life left in a single Muslim, to have this Hindu Raj".
(مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، شمال مغربی سرحدی صوبہ، کے نام پیغام مورخہ 4اپریل 1943ء) اسلامیان ہند کے اس عظیم، مخلص، دوراندیش، بے باک اور بلند ہمت لیڈر کو قدرت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ انہیں مسلمانوں کی آزادی، ترقی، عظمت رفتہ کی بحالی، خودداری اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کا ہمیشہ شدید احساس تھا۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے مسلمانوں کو آزادی دلانے کیلئے اپنا تن من دھن قربان کیا اور سیاسی قیادت کا وہ اعلیٰ معیار قائم کیا کہ اب تک اپنے اور غیراسکی اہمیت کو تسلیم کرتےہیں۔ بانی پاکستان کی وفات کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جسے پُر کرنے کیلئے مسلسل جدوجہد، مخلصانہ قیادت اور ناقابل تسخیر عزم راسخ کی ضرورت ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کا کافی حد تک عہد ساز شخصیات پر دارومدار ہوتا ہے۔ ایسے عظیم انسان مرنے کے بعد بھی لوگوں کے اذہان و قلوب میں زندہ رہا کرتے ہیں۔ بقول اقبالؒ
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
تازہ ترین