• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی انسانی ترقی خاص طور پر سائنسی ترقی کے حوالے سے انقلاب آفرین صدی رہی، بیشمار سائنسی ایجادات ہوئیں لیکن جس ایجاد نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا وہ کمپیوٹر کی ایجاد تھی جس کے باعث اب پوری دنیا ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ ہماری حرماں نصیبی یہ رہی کہ ڈیجیٹل لٹریسی کے حوالے سے ہماری حکومتوں نے کوئی موثر اقدام نہ کیا، اس کے باوجود ہمارے ذہین نوجوانوں نے اس میدان میں بہت سے کار ہائے نمایاں سر انجام دیے، یہ بھی سچ ہے کہ کسی معاملے میں کبھی اتنی تاخیر نہیں ہوا کرتی کہ اصلاح احوال ممکن نہ رہے، البتہ اس تاخیر کا ہرجانہ محنت اور لگن کی مقدار بڑھانا ہے۔ اسلام آباد میں ڈیجیٹل پاکستان وژن کے اجرا کی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا یہی ادراک کچھ ان الفاظ میں سامنے آیا کہ ’’مجھے ڈیجیٹل پاکستان پر پہلے توجہ دینی چاہئے تھی کیونکہ یہ ہمارے نوجوانوں کے لئے بہت اہم ہے، دنیا اس طرف جا رہی ہے لیکن ہم پیچھے رہ گئے ہیں، اب ہماری پوری توجہ اسی منصوبے پر ہو گی جس کے ذریعے ہماری نوجوان آبادی ہماری طاقت بن جائے گی کیونکہ ہمارے پاس دنیا میں دوسری سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے‘‘۔ اس موقع پر ڈیجیٹل پاکستان وژن کی سربراہ ڈاکٹر تانیہ ایدروس، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اور وفاقی کابینہ کے ارکان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد موجود تھے۔ وزیراعظم پاکستان کے متذکرہ منصوبے کو دیر آید درست آید ہی قرار دیا جائے گا کہ یہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں تبدیل کرنے میں خشتِ اول کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ آج کسی بھی شعبے میں دیکھ لیں، مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کے استعمال میں مہارت رکھنے والا فائق تصور ہوتا ہے، ڈیجیٹل لٹریسی دراصل کمپیوٹر خواندگی ہے جو کسی بھی سطح پر کام کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ عام فہم الفاظ میں یہ کہ کوئی بھی شخص اب کمپیوٹر سافٹ ویئر سسٹم اور انٹرنیٹ کا مناسب استعمال جانے بغیر کسی بھی شعبے میں بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے گا۔ بلاشبہ ہم ڈیجیٹل اور بائیو میٹرک عہد میں زندہ ہیں، جہاں ہماری الیکٹرونک اور موبائل ڈیوائسز تک تبدیل ہو کر ڈیجیٹل ہو چکی ہیں یہی نہیں تعلیم بھی آن لائن ہوتی جا رہی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والے لوگوں کے طرزِ زندگی اور سوچنے کے انداز میں جو تفاوت ہے وہ ڈیجیٹل دور کا ہی ہے، یہ بھی یاد رہے کہ ٹیکنالوجی اور جدت کا راستہ کبھی نہیں رک سکتا بلکہ ایسا کرنا احمقانہ عمل ہے کہ یہ انسان کو ترقی معکوس کی جانب لے جانے کا سبب بنتا ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی اکیسویں صدی کی سائنس ہے جس کے بغیر گزارا ممکن نہیں کہ اب یہ ملازمت، تحقیق و تفتیش اور افرادی قوت کیلئے ناگزیر ہو چکی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 80کی دہائی میں بنگلور کو آئی ٹی سٹی قرار دے دیا اور اب یہ بھارت کا ’’سلیکون ویلی‘‘ کہلاتا ہے کہ بھارت کو کثیر زرمبادلہ بھی دلواتا ہے اور دنیا بھر میں بھارت اور چین کے سافٹ ویئر انجینئر سب سے زیادہ اور اہم پوسٹوں پر متمکن ہیں۔ دو حرفی بات یہ کہ دنیا میں ترقی کیلئے اگر اب کوئی راستہ ہے تو وہ ڈیجیٹل لٹریسی ہے اور اسی ذیل میں ہونے والی وہ ایجادات، پروگرام اور منصوبے جو آنے والے وقت میں دنیا کو مزید حیرت میں ڈال دیں گے۔ کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل دنیا سہل بھی ہو گی اور کرپشن کی راہ بھی روکے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکوں کی معیشت کا مضبوط ستون بھی بنے گی۔ وزیراعظم پاکستان کا اس کیلئے گوگل میں انتہائی اہم پوسٹ سنبھالنے والی ڈاکٹر تانیہ ایدروس کو پاکستان بلا کر یہ پروگرام شروع کرنا جس میں انٹرنیٹ تک رسائی ہر پاکستانی کا بنیادی حق متصور ہو گی، انتہائی دور رس نتائج کا حامل ایسا فیصلہ ہے جو پاکستان کو مثبت طور پر تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ اس کے لئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اب کوئی تاخیر نہیں کی جانی چاہئے کہ ہم پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔

تازہ ترین