مسئلہ کشمیر پر تاحال عالمی برادری اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے موثر اور ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی لیکن یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی، مسلمانوں کی نسل کشی اور فاشزم سے خطے اور دنیا کے امن کو لاحق خطرات کا ادراک کیا جا رہا ہے، خصوصاً چین، ایران اور روس کی طرف سے پاکستان کے اصولی موقف کی واضح حمایت اور مصالحت کیلئے صدر ٹرمپ کے بیانات اس دیرینہ مسئلہ کے تصفیے کے حق میں تقویت کا باعث بنے ہیں۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی 72برس بعد یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا گیا ہے، اس ضمن میں او آئی سی سے کردار ادا کرنے کا جس شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا اس میں اب دیر نہیں رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب نے اگلے سال اسلام آباد میں عالمی کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے جس میں مسلم ملکوں کے اسپیکر اور پارلیمنٹیرینز شریک ہوں گے جس میں او آئی سی کا خصوصی کردار ہوگا۔ سعودی شوریٰ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ بن محمد الشیخ کی سربراہی میں سعودی پارلیمانی وفد نے اسلام آباد میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے الگ الگ ملاقاتوں میں کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کرتے ہوئے مقبوضہ وادی سے کرفیو ہٹانے اور انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ کشمیر جہاں انسانی قدروں کے اعتبار سے بنیادی طور پر اقوام متحدہ کا مسئلہ ہے، وہیں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بھارت نسل کشی کر کے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے درپے ہے جس کی رو سے یہ معاملہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اٹھانے میں اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ اب جہاں آنے والے دنوں میں او آئی سی پارلیمنٹیرینز سر جوڑ کر بیٹھیں گے، امید واثق ہے کہ اس سے اگلا مرحلہ اسلامی ممالک کے سربراہانِ مملکت کی کانفرنس پر منتج ہو گا۔