• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زہیرہ جمشید، سیال کوٹ

پورا محل چاند کی چاندنی میں ایسا لگ رہا تھا، جیسے برف کا سفید تودا ہو۔ سامنے کی طرف ایک بڑا تالاب تھا،جس میں پورے آسمان کا عکس سمایا ہوا تھا۔اس کا ٹھہرا ہوا پانی شیشے جیسا معلوم ہو رہا تھا۔رات کے اس پہر میں ستاروں نے کشکول بھر بھر کر روشنیوں کے موتی زمین پہ پھینکنا شروع کر دئیے۔محل کے چاروں طرف باغات تھے۔ 

جہاں روح تک کو معطّر کردینے والی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہوائیں پھولوں کے ہونٹوں سے شبنمی جام اپنے کٹوروں میں بھرتیں اور کم سن بچّیوں کی طرح بھاگ جاتیں۔آنے والی صبح امیدوں، نعمتوں سے بھری ہوئی تھی۔محل کی سب سے اوپری منزل میں موجود ملکہ کی خواب گاہ میں بادشاہ سورہا تھا۔شاہانہ پلنگ، جو سونے کے پانیوں کی پرتوں جیسا چمک رہا تھا۔خواب گاہ کے باہر مسلح پہرے دار کھڑے تھے۔

رات آخری پہر میں داخل ہوئی۔کھڑکی کے باہر ایک بوڑھا، لمبی خُوب صُورت چونچ والا ہُدہُد گردن پیچھے اکڑائے بیٹھا تھا۔ نہ جانے اُسے کس نے تہجّد کی مخبری کی۔ اُس نے اٹھ کر چہچہانا شروع کردیا۔ اُس کی آواز سے درختوں کے گھونسلوں میں موجود پرندوں نے انگڑائی لی۔ کھڑکی کے لہلہاتے سُرخ پردوں سے لپٹی ہوا بادشاہ کے چہرے سے اٹھکھیلیاں کرنے لگی۔ بادشاہ نے خمار آلود آنکھیں کھولیں۔ دل پہ ایک بوجھ پڑا محسوس ہوا۔ بے خبرسوئی ملکہ کو دیکھا اور خواب گاہ سے باہر نکل آیا۔

ستارے آسمان کی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے۔ ہواؤں نے سرگوشیاں کیں۔بادشاہ اپنی خواب گاہ میںواپس آیا، جہاں مخملیں جائے نماز پہلے سے بچھا تھا اور خُوب صُورت رحل پہ قرآن رکھا تھا۔چاندی کے برتن میں رکھے پانی سے وضو کیا۔اطلس کی پوشاک زیب ِتن کی۔اللہ کے حضور حاضری دی اور قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے لگا۔دل کا غبار ،سیّال مائع کا بہروپی بن کر اشکوں میں بہنے لگا۔بوڑھا ہدہد خاموش ہو گیا۔آسمان پہ صبحِ کاذب پھوٹنے لگی۔ 

ایک سفید روشن لکیر مشرق سے اُبھری ،جس کے نیچے سارا آسمان سیاہ تھا۔ تالاب میں موجود ستارے جھلملانے لگے۔ آسمان سے دو ستارے ٹوٹے اور سیدھے کھڑکی کے رستے بادشاہ کی خواب گاہ میں آ ٹھہرے۔ خُوب صُورت سفید پَروں والے نور کے ہالے۔ان کے ہاتھ میں چاندی کا بڑا سا تھال تھا۔ جو ریشمی رومال سے ڈھکا تھا۔’’اے اللہ کے خلیفہ…!‘‘ دونوں نے سر جُھکا کر آداب کیا۔بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو چونک گیا۔’’کون ہو تم؟‘‘رعب دار آواز کمرے میں موجود شیشوں کی نازکی پہ گراں گزری۔

دونوں نے اپنے پَروں کو ادب سے بچھا دیا۔بادشاہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور قدم قدم چلتا اُن کے سامنے آرکا۔لاشعورمیں خوف نے سر اٹھایا۔’’کیا حکم ہے اُس ذات کی طرف سے؟‘‘اب خوف کی جگہ بیتابی نے لے لی۔’’اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ جو بندہ میرے آگے سجدہ ریز ہو اور مجھ سے اپنا غم بیان کرے۔ میری طرف سے اسے تحفۂ سکینہ دیا جائے۔‘‘ ساتھ ہی دونوں نورانی ہستیوں نے تھال سے ریشمی کپڑا اٹھایا۔ 

ایک خُوب صُورت باکرہ حور نکل کر سامنے پیش ہوئی۔ عقیدت سے سر جُھکایا۔لمبی پلکوں سے آنکھیں باپردہ اور گال سایہ گیر ہو رہے تھے۔سفید اطلس کی لمبی پوشاک، جس سے پاکیزگی اور وفا ٹپک رہی تھی۔بادشاہ نے اتنا حُسن آج سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔لمحات سرکتے رہے۔ اچانک ہدہد نے گردن سیدھی کی اوراپنی گنگناہٹ سے صبح کا استقبال کیا۔

بادشاہ جو رحل سے سر ٹِکائے اشک بہاتے خواب کی وادی میں گُم ہو چکا تھا، ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ خواب گاہ خالی تھی۔کھڑکی سے باہر دیکھا تو پیلی روشنی آسمان پہ بکھرنے کو بے تاب تھی۔ بادشاہ نے دل پہ ہاتھ رکھا۔’’سکینہ…!‘‘

(نوٹ: ’’سکینہ‘‘ سکون کو کہتے ہیں اور ایسی آرائش کو،جو آنکھ کو بھاتی ہے۔)

تازہ ترین