• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کئی دنوں کے بعد سورج چمکا ہے، دھوپ کھلی ہے اور چہار سُو روشنی پھیلی ہے۔ روشنی پھیلتی ہے تو انسانی زندگی بھی روشن ہونے لگتی ہے۔ جسموں میں توانائی عود آتی ہے اور حرکت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سردی، ٹھنڈ، بارش، دھند اور نیم تاریکی موسم پر ڈپریشن، اداسی اور کاہلی کی چادر اوڑھ دیتی ہے۔ جب موسم ڈپریشن کا شکار ہو تو انسان بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ زندگی پر تیزی اور حرکت کے بجائے کاہلی چھا جاتی ہے اور اُداسی کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ لوگ رضائیوں اور لحافوں میں دبکے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ رضائی اور لحاف انسان کو سردی کے موسم میں ماں کی گرم آغوش کی مانند اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ماں کی گود تو صرف بچپن میں ہی نصیب ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان ماں کی گود اور فرشتوں کی سی معصومیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ زندگی کا سفر طے ہوتا ہے تو انسان کو لاکھوں نعمتیں، سہولتیں اور آسانیاں میسر آتی ہیں لیکن ماں کی گود اور بچپن کی معصومیت کبھی واپس نہیں آتی۔ گویا زندگی کا سفر بیک وقت محرومیوں اور کامیابیوں سے عبارت ہے لیکن انسان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ وہ اپنے سفر میں محو منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آج کئی دنوں کے بعد دھوپ چمکی ہے۔ درخت سرسبز اور دُھلے دُھلے لگتے ہیں۔ بارش پیغام لائی ہے کہ اب ان خزاں رسیدہ درختوں کی ٹہنیوں پر کونپلیں پھوٹیں گی، چھوٹے چھوٹے معصوم سے پتے جنم لیں گے، پھول کھلیں گے، پھر یہ رنگ برنگے پھول اپنا جوبن دکھائیں گے، یہ نظارہ ہماری آنکھوں کو بہلائے گا اور قلب میں خوشی کی لہر پیدا کرے گا۔ پھر موسم بدلنا شروع ہوگا۔ بہار مختصر سا نظارہ دکھا کر رخصت ہو جائے گی۔ فضا میں گرمی کے آثار ابھریں گے۔ سورج تپش دکھانا شروع کرے گا تو یہ سرسبز پتے اور رنگ برنگے پھول مرجھانا شروع کر دیں گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے ان کی مرجھائی ہوئی پتیاں زمین پر گر کر مٹی میں مٹی ہو جائیں گی۔ سوچا جائے تو یہی زندگی ہے۔ پھول، کونپلیں سرسبز پتے خزاں اور بہار دیکھتے ہیں۔ وہ ایک خزاں کے بعد جنم لیتے اور دوسری خزاں میں رخصت ہو جاتے ہیں جبکہ انسانی زندگی اپنے اپنے مقدر کے مطابق بہت سی خزائیں اور بہت سی بہاریں دیکھتی ہے۔ انسانی زندگی کا بھی سفر اسی طرح کا ہے۔ پیدا ہونا، پھلنا پھولنا اور پھر مرجھا کر زمین کے اندر دفن ہو جانا۔ پتوں، پھولوں اور فطرت کا بھی سفر یہی ہے۔ فرق عمر اور طوالت کا ہے۔ گویا ہمارے اردگرد پھیلا ہوا قدرت کا نظام ایک ہی پیغام دیتا ہے کہ دنیا دارالفنا ہے۔ ہر شے کا مقدر جنم لینا اور ختم ہو جانا ہے۔ فطرت کا عروج و زوال زندگی کا عروج و زوال ہے۔ مطلب یہ کہ ہر وہ شے جس میں جان ہے، زندگی ہے، اُسے ختم ہونا ہے۔ گویا زندگی کا مقدر ہی موت ہے۔ یہی پیغام قدرت کے نظام کا ہر شعبہ ببانگ دہل دیتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان کسی نہ کسی زعم میں مبتلا ہو کر تکبر کا شکار ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر ؎

اے شمع تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات

ہنس کر گزار یا اِسے رو کر گزار دے

یہ بھی ایک عجیب سی بات ہے کہ سردیوں میں نیم تاریک اور اداس دنوں کے بعد جب دھوپ نکلتی ہے تو میں دھوپ کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح موسمِ بہار میں جب چودھویں کا چاند اپنے حسن کا جلوہ بکھیرتا ہے اور رات کی تاریکی کا دامن تار تار کر ہر گوشے کو روشن کر دیتا ہے تو میں چاندنی کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ سردیوں کی دھوپ اور چاندنی کا جادو ایک عجیب سی کیفیت پیدا کرتا ہے اور جی چاہتا ہے پیدل چلتا رہوں، چلتا رہوں اور یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔ بہار کی چاندنی راتیں فضا میں گلاب اور رات کی رانی کی خوشبو بکھیر دیتی ہیں اور ہمارے ہر قدم کو معطر بنا دیتی ہیں۔ ایسے میں سیر کے بعد میں نہ تھکتا ہوں اور نہ ہی اکتاتا ہوں بلکہ اس کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ یہی دھوپ جب مئی، جون، جولائی میں جسم کو جلاتی ہے تو ہم سایے اور ٹھنڈک کی پناہ ڈھونڈھتے ہیں اور پسینے سے شرابور جسم کو پنکھے سے سہلاتے اور بہلاتے ہیں۔ گویا زندگی کی مانند فطرت کا ہر موسم اور ہر پہلو اپنا حسن بھی دکھاتا ہے اور اپنی سختی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے، اپنی بہار بھی دکھاتا ہے، اپنی خزاں کا تجربہ بھی کرواتا ہے، پھول بھی دکھاتا ہے اور کانٹے بھی چبھوتا ہے مطلب یہ کہ زندگی میں نظامِ قدرت کے تحت کسی شے کو بھی ثبات نہیں۔ بس ایک تغیر کو ثبات ہے اور تغیر ہی زندگی کی روح اور بنیادی اصول ہے۔

انسان بچپن میں ماں کی گود میں بیٹھ کر یوں محسوس کرتا ہے جیسے کُل کائنات اور دنیا یہی ہے۔ بچپن فرشتوں کی سی معصومیت کا نام ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بچہ گود سے نکلتا ہے تو معصومیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ جوانی میں انسان سردیوں کی نرم و گداز دھوپ اور چودھویں کے چاند کی چاندنی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے لیکن زندگی اتنی ناپائیدار ہے اور اس قدر بےثبات ہے کہ نہ ماں کی گود اور بچپن کی معصومیت ہمیشہ ساتھ دیتی ہے اور نہ ہی موسموں کا عشق عمر بھر ساتھ دیتا ہے۔ ہر چیز اپنا رنگ اور جلوہ دکھا کر غائب ہو جاتی ہے اور پھر انسان سوچتا ہے کہ یہ نظر کا فریب تھا یا خواب ...یہ نہ نظر کا فریب ہے اور نہ ہی خواب۔ یہ نظامِ قدرت ہے۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ جب انسان بظاہر بہت بڑے منافع کے زعم میں مبتلا ہوتا ہے تو دراصل وہ بھی گھاٹے کی ہی ایک دوسری صورت اور شکل ہوتی ہے۔ ایک فریب کے بعد دوسرے فریب میں مبتلا ہو جانا زندگی ہے۔ اسی لئے صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ دراصل زندگی ایک فریب ہے، نظر کا دھوکہ ہے، جس نے یہ راز پا لیا وہ سرخرو ہوا جس نے اس راز سے آنکھیں پھیر لیں وہ ناکام ٹھہرا۔

تازہ ترین